ایف ائی ار کیا ہے یہ کس قانون کے تحت کاٹی جاتی ہے ایف ائی ار کے بعد عدالتوں کا کیا رول ہے
ایف ائی ار کا مطلب ہے ابتدائی معلوماتی رپورٹ
سیکشن 154 سی ار پی سی کے تحت پولیس ایف ائی ار خصوصا قابل دست اندازی پولیس کہ جرم کے ارتکاب میں ایف ائی ار کاٹنے کی پابند ہے مگر نا قابل دست اندازی جرم میں ایف ائی ار فور اور نہ کاٹی جائے گی
قابل دست اندازی جرم اور ناقابل دست اندازی جرم اس میں فرق کیا ہے؟
قابل دست اندازی جرم میں پولیس فورا ایف ائی ار کاٹے گی اس میں مجسٹریٹ سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہ ائے یہ ایسے جرائم ہیں جیسے کہ 302, 376 ,365 392, 395 وغیرہ وغیرہ میں پولیس فورا ایف ائی ار کاٹنے کی پابند ہے اور یہ سی ار پی سی کے سیکشن 154 کے تحت پولیس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ ایسے جرائم کی تلاب ملتے ہی اپنے رجسٹر میں ایف ائی ار کاٹ دیں ایسی صورت میں مجسٹریٹ سے اجازت کرنے کی ضرورت نہ ہے اور پولیس ایف ائی ار کاٹنے کے فورا بعد تحقیقات کا عمل بھی جاری کر سکتی ہے
ناقابل دست اندازی جرم میں ایف ائی ار فورا نہ کاٹی جائے گی بلکہ اس میں مجسٹریٹ سے اجازت طلب کی جائے گی مزید تحقیقات کی جائیں گی ان میں شامل ہیں جیسے چھوٹے جرائم مثلا دھمکی دینا لڑائی جھگڑا گالم گلوچ ہلکی پھلکی مار پیٹ کسی کی توہین کر دینا وغیرہ وغیرہ ناقابل دست اندازی جرم میں پولیس مجسٹریٹ سے اجازت طلب کرے گی پھر ایف ائی ار کاٹے گی اور پھر تحقیقات کا عمل شروع کرے گی ایسے جرم کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس 155 سی ار پی سی کے تحت رپورٹ درج کرے گی مگر ایف ائی ار نہ کاٹے گی مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر ایسے جرائم میں پولیس پہلے مجسٹریٹ سے اجازت طلب کرتی ہے
قابل دست اندازی جرم اور ناقابل دست اندازی جرم کو شیڈیول دو سی ار پی سی میں مزید تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے
ایف ائی ار ہونے کے بعد کیا پروسیجر شروع ہوتا ہے ؟
ایف ائی ار ہونے کے بعد پولیس گواہوں کے بیانات کو قلم بند کرتی ہے ثبوت اکٹھے کرنا تفتیش مکمل کرنا موقع کا معائنہ کرنا پولیس ایف ائی ار ہونے کے بعد ان کاموں میں لگ جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ثبوت اکٹھے کیے جا سکے اور کسی گنہگار کو سزا دلوائی جا سکے اور کسی بے گناہ کو معافی دلوائی جا سکے اور اگر ملزم قابل دست اندازی جرم میں ملوث پایا گیا ہو تو پولیس اسے گرفتار کرے گی اور جب پولیس اپنی تفتیش گواہوں کے بیانات موقع کا معائنہ اور دوسرے ثبوت اکٹھے کر لیتی ہے اب یہ تفتیش مکمل کرنے کے بعد فائنل چلان عدالت کو بھیج دیا ہے
عدالت میں چالان جمع کروانا۔
عرف عام میں چالان کو 173 کی رپورٹ بھی کہا جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں سی ار پی سی کے سیکشن 173 کے تحت عدالت میں چلان کو جمع کروایا جاتا ہے عموما 14 دن کے اندر چلان جمع کروانا ہوتا ہے جس میں پولیس 14 دن کے اندر تفتیش مکمل کرتی ہے گواؤ کے بیانات کالم بند کرتی ہے موقع کا معائنہ کرتی ہے اور ثبوت اکٹھے کرتی ہے تاکہ عدالت میں چلان کے ذریعے ساری باتیں بتائی جا سکے جو پولیس نے تفتیش کے دوران اکٹھی کی ہوتی ہے اور بعض صورتوں میں پولیس 14 دن کے اندر تفتیش مکمل نہیں کر پاتی تو ایسی صورت میں ادھورا چالان بھی 14 دن کے اندر جمع کروا سکتی ہے اور پولیس عدالت سے مزید مہلت بھی مانگ سکتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ثبوت اکٹھے کیے جا سکے اور کسی گنہگار کو سزا دلوائی جا سکے
تاکہ معاشرے میں بڑھتے جرائم کو روکا جا سکے کیونکہ جہاں انصاف نہیں ہوتا لوگوں کو انصاف نہیں ملتا عدل نہیں ہوتا وہاں جرائم بڑھتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کی زندگی تباہ ہوتی ہیں اس لیے ہمارے معاشرے کی پولیس بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس کو چلان کی صورت میں وہ عدالت میں جمع کرواتی ہے
اور جب پولیس 14 دن کے اندر عدالت میں چالان جمانی کروا پاتی تو وہ عدالت سے مزید مہلت مانگ لیتی ہے مگر اس دوران 14 دن کے اندر وہ عدالت میں ایک عارضی چالان جمع کروا دیتی ہے تاکہ کیس کی سنوائی جاری رہے اس کے بعد مزید مہلت لے کر وہ عدالت میں بعد میں حتمی مطلب اخری چلان جمع کرواتی ہے
جب عدالت میں چالان جمع ہو جاتا ہے تو عدالت مزید کاروائی شروع کرتی ہے اور اگر ملزم جیل میں ہو تو عدالت ملزم کے لیے پیشی کی تاریخ مقرر کرتی ہے اس کے بعد عدالت فرد جرم عائد کرتی ہے
اب فرد جرم کو مزید سمجھتے ہیں کہ فرد جرم ہے کیا کسی ملزم پر جب الزام لگایا جاتا ہے یا جب اس پر ایف ائی ار کاٹی جاتی ہے تو عدالت اس کو فرد جرم کے ذریعے بتاتی ہے کہ تم پر فلاں جرم ہے اور تم نے یہ جرم فلاں وقت میں کیا تھا اور تم نے یہ جرم فلاں جگہ پہ کیا تھا اس کو فرد جرم کہتے ہیں مطلب کسی پر عدالت کی طرف سے الزام لگانا کہ تم نے یہ یہ جرم کیے ہیں اور جس جگہ پر کی ہے اور جس وقت پر کیا ہے اس سب کا بتایا جاتا ہے اور تب عدالت ملزم سے سوال کہتی ہے کیا تم ان جرائم کو مانتے ہو اور اگر ملزم انکار کر دے تو کیس کی سماعت شروع ہو جاتی ہے ٹرائل شروع ہو جاتا ہے اور اگر ملزم ہاں کر دے تو اسے اسی وقت سزا سنا دی جاتی ہے فرد جرم لگنے کے بعد کیس کی باقاعدہ طور پر سماعت شروع ہو جاتی ہے
عدالت ملزم پر فرد جرم عائد کرتی ہے جب فرد جرم لگا دیتی ہے تو پھر عدالت اس کی ایک کاپی ملزم کو دیتی ہے جس میں صاف طور پر لکھا ہوتا ہے کہ ملزم نے یہ جرم کیا ہے اس وقت کیا ہے اور فلاں جگہ پر کیا ہے اس طرح ملزم اپنے جرم سے اگاہ ہو جاتا ہے
اس کے بعد گواہوں کے بیانات کی باری اتی ہے استغاثے کے گواہ اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہیں مطلب وقوع کی بابت جو جو انہوں نے دیکھا ہوتا ہے یا جو انہوں نے سنا ہوتا ہے وقوعہ کے متعلق تو وہ اس پر اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہیں اس کے بعد سرکاری وکیل استغاثہ گواہ سے سوالات کرتا ہے اور جج یا عدالت کا کوئی نمائندہ جج کی اجازت سے وہ بیانات قلم بند کرتا ہے اس طرح سرکاری وکیل جب سوالات کر لیتا ہے تو پھر ملزم کا وکیل مزید سوالات یعنی جرح کرتا ہے اس طرح کیس میں چھپے حقائق سامنے انا شروع ہوتے ہیں جرح کرنے سے فائدہ یہ ہوتا ہے وقوع کی بابت جو حقائق چھپ جاتے ہیں وہ بھی سامنے انا شروع ہو جاتے ہیں اور اس سے اس بات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کتنے فیصد سچ بولا جا رہا ہے اور کتنے فیصد جھوٹ بولا جا رہا ہے وکیل جرا کے دوران ہر قسم کے کیس کے متعلق سوالات پوچھتا ہے جس سے جرم ثابت ہونا یا نہ ہونا واضح طور پر نظر انا شروع ہو جاتا ہے
اس کے بعد ملزم سیکشن 342 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کرواتا ہے مگر پراسیکیوشن کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اس پر کراس کر سکے کیونکہ یہ پروسیجر کے خلاف ہوتا ہے کہ پراسیکیوشن اس پر کراس کریں لیکن اگر ملزم خود اعترافی بیان ریکارڈ کروانا چاہے تو وہ پھر سیکشن 342 کے تحت نہیں بلکہ سیکشن 340 کے تحت اپنا بیان ریکارڈ کروائے گا جس پر پراسیکیوشن پھر اس پر ایگزیمن کر سکتا ہے اس پر کراس کر سکتا ہے اس طرح اب ملزم خود ایک گواہ کی کیٹاگری میں ا جاتا ہے
زیادہ تر دیکھنے میں اتا ہے کہ عدالت میں 342 کے بیان پر ملزم خاموش رہتا ہے وہ خاموشی اختیار کرتا ہے لیکن چند صورتوں میں ملزم اپنا بیان بھی ریکارڈ کروا دیتا ہے زیادہ تر ملزم خاموش رہتے ہیں کیونکہ وکلا انہیں خاموش رہنے کی ہی تلقین کرتے ہیں تاکہ ان کی زبان سے ان کے انداز سے ایسی کوئی زبان ایسی کوئی چیز یا بات سامنے نہ ا جائے جس سے کیس مزید بگڑ جائے اس لیے زیادہ تر وکلا اپنے ملزم کو 342 کے بیان میں خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں
اس کے ساتھ ساتھ وکیل اپنے ملزم کلائنٹ کو ساتھ ساتھ سمجھاتا ہے کہ 342 جو ہے وہ غیر حلفی بیان ہے اور جب کہ 340 وہ حلفی بیان ہے اس لیے اگر کوئی بیان دینا چاہے تو سوچ کر دے عام طور پر وکلاء اپنے کلائنٹ کو یہ ساری بات سمجھاتے اور سکھاتے ہیں
دفاع کے گواہ
ایک یہ بھی سورۃ ہوتی ہے ملزم کے پاس اپنے دفاع کے گواہ اور شوائد پیش کرنے کی مگر زیادہ تر کیسز پہ یہ مرحلہ اتا ہی نہیں کیونکہ ملزم پہلے ہی اپنے بیان اور گواہ پیش کر چکا ہوتا ہے اس لیے زیادہ تر کیسیس یہ مرحلہ نہیں اتا مگر یہ اپشن موجود ضرور ہوتا ہے
جب عدالت میں شہادت اور کراس ایگزامینیشن ہو جائے پھر اس کے بعد اتے ہیں وکلا کی کارکردگی اب دفاع وکلا اور پراسیکیوشن وکلا اپنے اپنے دلائل عدالت میں پیش کرتے ہیں جس کو عدالت کے نمائندگان کلائنٹ دوسرے وہ کلا اور جج صاحبان یا جج صاحب بڑے غور سے اور بڑے دیہات سے دونوں وکلا کے دلائل کو غور سے سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں درمیان میں جج صاحب جہاں سے سمجھ نہ پائے وہ وکیل صاحب سے کہہ سکتے ہیں کہ اس پوائنٹ کو مجھے کلیئر کریں وکیل صاحب پابند ہوتے ہیں اس پوائنٹ کو کلیئر کرنے کے تاکہ وہ اپنے ملزم کو ملزم کلائنٹ کو بچا سکے اور صاف الفاظ میں جج صاحبان کو قانونی نقطہ نظر میں رکھتے ہوئے اپنی بات سمجھائیں اسی طرح دوسرے وکیل صاحب جو سٹیٹ کی طرف سے ہے سرکاری وکیل بھی کہا جاتا ہے وہ ملزم کو سزا دلوانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں جرائم کم سے کم پیدا ہو اگر وہ شخص ملزم مجرم پایا جائے تو اسی دوران عدالت غور سے دلائل سننے کے بعد یہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے کہ جو ثبوت عدالت میں دیے گئے ہیں کہ ایا وہ جرم ثابت کرتے ہیں یا نہیں کرتے
عدالت میں جب دونوں وکلا اپنے اپنے دلائل دیتے ہیں تو وہ زبانی طور پر بھی دلائل دے سکتے ہیں اور تحریری طور پر بھی دلائل دے سکتے ہیں اور وہ ثبوت بھی عدالت میں پیش کرتے ہیں جیسے کہ
استغاثہ وکیل وہ وکیل ہوتا ہے جو سرکاری وکیل ہوتا ہے اور جو جرم کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ایا ملزم ہی مجرم ہے اور ملزم نے ہی جرم کیا ہے
اسی طرح دوسری طرف دفاع وکیل یہ وہ وکیل ہوتا ہے جو اپنے کلائنٹ ملزم کو بچانے کی کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ جرم اس نے نہ کیا ہے اس پر الزام لگایا گیا ہے یہ سراسر غلط بے بنیاد اور جھوٹا الزام ہے میرے ملزم کلائنٹ کو صرف پھنسایا جا رہا ہے اس کا اس وقت سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہے اس دوران دونوں وکیل دلائل دینے کے ساتھ ساتھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں کا سہارا بھی لیتے ہیں یہ فیصلے بھی عدالت میں جمع کرواتے ہیں کہ اس طرح کے وقوع میں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ نے سزا سنائی تھی استغاثہ وکیل کہتا ہے اور دفاع وکیل دوسرے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے عدالت میں پیش کر کے یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ ایسے جرائم میں عدالت نے ملزم کو بری کر دیا تھا اس طرح دونوں عدالت میں خوب گرما گرمی کے ماحول میں اپنے اپنے کلائنٹ کے لیے لڑتے ہیں
پھر اتی ہے فیصلے کی گھڑی جسے اکثر جج صاحبان محفوظ کر لیتے ہیں سارا کیس سننے کے بعد ثبوت و گواہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جج صاحبان فیصلے کو محفوظ کر لیتے ہیں اور پھر دوبارہ غور سے اس فیصلے کی طرف دیکھتے ہیں کہ ایا وہ اس کرسی پر بیٹھ کر اپنا حق ادا کر رہے ہیں یا نہیں اور اس ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے پھر جج صاحبان فیصلہ کرتے ہیں اگر ثبوت پائے جائیں تو ملزم کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزا سنا دی جاتی ہے اور اگر شک پایا جائے تو پھر ملزم کو بری کر دیا جاتا ہے
Comments
Post a Comment