کیا سیشن کورٹ ایک کیس کو تحصیل یا دوسرے ضلع میں ٹرانسفر کر سکتی ہے ؟ ہائی کورٹ کس سیکشن کے تحت کیس کو ٹرانسفر کر سکتی ہے ؟
کیا سیشن کورٹ ایک کیس کو تحصیل یا دوسرے ضلع میں ٹرانسفر کر سکتی ہے ؟
ہائی کورٹ کس سیکشن کے تحت کیس کو ٹرانسفر کر سکتی ہے ؟
![]() |
Transfer a case |
پاکستان میں بہت سی عدالتوں کے قیام موجود ہیں جن میں سے قابل ذکر سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ ہے سیشن کورٹ ڈویژن کے حساب سے سب سے بڑی عدالت ہوتی ہے یہاں پر لوگوں کو انصاف فراہم کیا جاتا ہے مختلف عدالتیں ڈویژن لیول پر قائم کی جاتی ہیں جو وہاں سے کیس ڈگری ہوتا ہے تو ہاری ہوئی پارٹی اپیل کے لیے سیشن کورٹ میں جاتی ہے
بالکل اسی طرح ہائی کورٹ کا بھی ایک الگ مقام ہے جو کہ صوبائی سطح پر بنائی جاتی ہے اس کا کام پورے صوبے کے وہ کیسز جو سیشن کورٹ سے ڈگری ہوتے ہیں ان کے خلاف اپیل یا رٹ ہائی کورٹ میں کی جاتی ہے جہاں ہائی کورٹ ماتحت عدالتوں کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے وہی فیصلہ برقرار رکھتی ہے یا پھر ان فیصلوں میں نقائص تلاش کر کے ان فیصلوں کی تردید کر کے ایک نئی فائنڈنگ ایک نیا فیصلہ دیتی ہے
سیشن کورٹ کے پاس تمام ماتحت عدالتوں کے اختیارات ہوتے ہیں
ماتحت عدالتوں میں فیملی عدالتیں دیوانی عدالتیں اور مجسٹریٹ کی عدالتیں ہوتی ہیں جب دیوانی عدالتوں میں کیس ڈگری ہوتا ہے دلائل سڑنے کے بعد جب جج صاحبان کسی کیس کا فیصلہ کرتے ہیں تو اگر کسی پارٹی کا وہ فیصلہ نہ منظور ہو تو وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے پاس اپیل کر سکتا ہے جن میں زمینوں کے کیسز شامل ہوتے ہیں ڈال دو میں فیصلے کی رفتار بڑی سست ہوتی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بڑے سوچ و بچار کے بعد دیوانی فیصلوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں مہربان کیس کو لٹکانے کے لیے نت نہیں درخواست عدالت میں جمع کروا دیتے ہیں جس سے عدالت ان درخواستوں کا جواب دوسرے کونسل صاحب سے طلب کرتی ہے اس طرح دیوانی کیسز بہت لمبے چلتے ہیں
بالکل اسی طرح جب ایک مجسٹریٹ کے پاس چوری ڈکیتی کا تل لڑائی جھگڑا زنا اغوا اس طرح کے کیسز اتے ہیں تو علاقے کا ایک مجسٹریٹ ان کیسز کو سنتا ہے اسی طرح اگر 22 بی 22 اے دائر کی جاتی ہے جس میں ایس پی کمپلینٹ سیل کمپلینٹ کی بات سنتا ہے اور اپنی فائنڈنگ ایڈیشنل سیشن کے پاس بھیجتا ہے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے متحد ایک ایڈیشنل سیشن جج ہوتا ہے جو بھائی سے 22 بی کے سیشن ٹرائل سنتا ہے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ڈسٹرکٹ لیول پر بیٹھتا ہے اور یہ ایک پورے ڈسٹرکٹ کا ہیڈ ہوتا ہے سبھی عدالتیں اس کے ماتحت ہوتی ہیں اور جج صاحب ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحب کسی بھی عدالت کا ارڈرڈ اور انسپیکشن کر سکتے ہیں اور انہیں انسٹرکشنز دے سکتے ہیں کہ اپ انصاف کو بہتر طریقے سے لوگوں میں فراہم کرنے کے لیے اچھے اچھے اقدامات اٹھائیں اور انہیں سمجھا سکتے ہیں
ہائی کورٹ کے پاس آئینی اختیارات
ہائی کورٹ کے پاس بہت سے اختیارات ہیں جن میں سے ائینی اختیارات کا استعمال ائین کی کتاب کو مد نظر رکھتے ہوئے رٹ 199 کے تحت کی جاتی ہے جس میں ہائی کورٹ کسی شخص کی رہائی کا حکم دے سکتا ہے کسی شخص کو نظر بند کرنے کا حکم دے سکتا ہے سرکاری ملازمین صوبائی لیول پر تنخواہ بڑھانے کا حکم بھی دے سکتا ہے صوبائی لیول پر ہائی کورٹ کسی ملازم کو عہدے سے ہٹانے یا عہدے پر ترقی دینے کا اختیار بھی رکھتا ہے ہائی کورٹ کے پاس یہ بھی اختیار ہوتا ہے کہ اگر صوبائی لیول پر کسی ووٹر کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ ہائی کورٹ میں رٹ کر سکتا ہے ائین پاکستان 1973 کے ارٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں رٹ کر سکتا ہے ہائی کورٹ میں پانچ قسم کی ریٹیں کی جا سکتی ہیں جو کہ زیل میں بتائی جا رہی ہیں
1: Habeas Corpus
2: Mandamus
3: Prohibition
4: Certiorari
5: Quo Warranto
یہ پانچ قسم کی ریٹ ہیں جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو غیر قانونی حراست میں نہیں رکھا جا سکتا اب ایسی بات سورتوں میں پولیس والے کسی کو پکڑ کے لے اتے ہیں اس کی بندی نہیں ڈالتے اسے تھانے میں ہی رکھتے ہیں یا پھر اس کو جب اس کا اندراج نہیں کرتے اور اسے 24 گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے پاس پیش نہیں کرتے یا دو تین دن تک اپنی کسٹڈی میں رکھتے ہیں تو ایسی صورت میں ہائی کورٹ میں رٹ کی جا سکتی ہے یا پھر کسی سرکاری ملازم کو یا کسی ڈیپارٹمنٹ کو کوئی حکم دیا جائے کہ وہ یہ کام کرے اگر وہ نہ کرے تو ہائی کورٹ میں رٹ کی جا سکتی ہے اس کے بعد ہائی کورٹ کسی ماتحت عدالت کو کوئی کام کرنے کا حکم دے سکتے ہیں کسی کام سے منع روکنے کا حکم بھی دے سکتی ہے اسی طرح ہائی کورٹ کسی ادارے کے حکم کی تردید بھی کر سکتی ہے یا اسے کلعدم قرار بھی دے سکتی ہے جو کہ غیر ائینی غیر قانونی طور پر کیا گیا ہو ایسے فیصلے کے خلاف بھی ہائی کورٹ میں رٹ کی جا سکتی ہے اس کے بعد ہائی کورٹ کے پاس یہ بھی اختیار رہتا ہے کہ وہ کسی بھی ملازم کوئی یا کسی بھی عہدے دار شخص کو یہ پوچھ سکتی ہے کہ وہ کس حیثیت سے عہدے پر بیٹھا ہوا ہے اور کام کر رہا ہے
ملک پاکستان میں پانچ ہائی کورٹ ہیں
ملک پاکستان میں پانچ ہائی کورٹ ہیں ویسے تو ہر صوبے میں ایک ایک ہائی کورٹ ہے جیسے کہ
بلوچستان ہائی کورٹ
سندھ ہائی کورٹ
پنجاب ہائی کورٹ
خیبر پختو خواں ہائی کورٹ
اور اسلام اباد ہائی کورٹ
سب ہائی کورٹ میں ریٹ ائین پاکستان 1973 کے ارٹیکل 199 کے تحت ریٹ کی جاتی ہے اس میں کسی شخص کی غیر قانونی گرفتاری پر بھی رٹ ہو جاتی ہے
کسی شخص کے ناجائز اختیارات کے خلاف حقوق تحفظ حاصل کرنے کے لیے بھی ہائی کورٹ میں رٹ کی جا سکتی ہے جس میں ہائی کورٹ کسی بھی شخص کسی بھی ادارے کسی بھی کمپنی کے حقوق کے تحفظ کے لیے فیصلہ سنا سکتی ہے پھر اس کے بعد اتی ہے ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ
سیشن کورٹ کے کیس ٹرانسفر کرنے کے اختیارات
سیشن کورٹ ضلع کی سب سے بڑی عدالت ہوتی ہے اسے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحب سنبھالتے ہیں سیشن کورٹ کے پاس اختیارات ہوتے ہیں مگر محدود ہوتے ہیں سیشن کورٹ ایک ضلع سے دوسرے ضلع یا ایک تحصیل سے دوسری تحصیل میں کیس ٹرانسفر نہیں کر سکتے
مگر ہاں البتہ اپنے ہی ضلع میں ایک عدالت سے دوسری عدالت میں کیس ٹرانسفر کر سکتی ہے
اس معاملے میں ضابطہ دیوانی اور ضابطہ فوجداری کے مختلف سیکشنز کے تحت کیس ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے جیسا کہ دیوانی کیس ہو تو اسے ضابطہ دیوانی کے سیکشن 24 کے تحت اپنے ہی ضلع کی ایک عدالت اور وہ عدالت دیوانی عدالت ہو تو ایک دیوانی عدالت سے دوسری دیوانی عدالت میں کیس ٹرانسفر کر سکتا ہے اور اگر ڈسٹرکٹ ڈسٹرکٹ جج کو یہ لگے کہ یہ کیس میرے پاس زیادہ بہتر طریقے سے حل ہو سکتا ہے
مثال کے طور پر
ایک دیوانی کے اس میں دونوں وکلا صاحبان ہوں اور وکلا صاحبان کے ذاتی کیس ہو تو وہاں عدالت میں امن کا خطرہ رہتا ہے اس صورتحال میں ڈسٹرکٹ سیشن جج ایسا کیس اپنے پاس بھی رکھ سکتا ہے یا اور بھی صورتحال میں ڈسٹرکٹ سیشن جج اپنے پاس کیس رکھ سکتا ہے
اسی طرح سیشن جج ضابطہ فوجداری کے سیکشن 528 کے تحت ایک مجسٹریٹ سے دوسرے مجسٹریٹ کو فوجداری کیس ٹرانسفر کر سکتا ہے یا ایک ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت سے دوسرے سیشن جج کی عدالت کو کیس ٹرانسفر کر سکتا ہے اور یہ اختیارات ضابطہ فوجداری کے سیکشن 528 کے تحت سیشن جج کو حاصل ہے
بعض صورتوں میں ایک کیس جو ضلع بھلوال میں دائر ہونا تھا مگر وہ کیس شاہپور میں دائر کر دیا گیا ایسی صورتحال میں ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں کس ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے مگر صرف اس صورتحال میں
باقی ایک ضلعے سے دوسرے ضلعے میں کیس ٹرانسفر کرنے کا اختیار صرف ہائی کورٹ کے پاس ہے
PLD 2025 LAHORE 98
Comments
Post a Comment