خاتون ملزمہ پر الزام مدعی کو اغوا کرنا مارنا پیٹنا ننگی ویڈیوز بنانا اور تاوان کے لیے 10 لاکھ روپے مانگنا ؟
خاتون ملزمہ پر الزام مدعی کو اغوا کرنا مارنا پیٹنا ننگی ویڈیوز بنانا اور تاوان کے لیے 10 لاکھ روپے مانگنا
کہانی کا اغاز کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ درخواست گزار پر الزام ہے کہ اس نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر کسی کو اغوا کیا پھر اس کو مارا پیٹا تشدد کیا پھر اس کی ننگی ویڈیوز بنائی اور پھر سب سے اخر میں تاوان برائے دس لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی گئی
اس طرح جن جرائم کا ارتکاب ہوا ہے وہ مدرجہ ذیل ہے
365 , 506(ii) , 292 A , 337 A , 170 , 171 , 342 , 148 , 149, PPC
365 A
اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی مرضی کے بغیر زبردستی لے جا اور اسے قید میں رکھے اس کو اس کی ازادی سے محروم کر دے تو یہ 365 تعزیراتِ پاکستان کے تحت آتا ہے ۔
506 (ii)
اگر کوئی شخص کسی کو جان سے مار دینے کی یا سخت قسم کے نقصان پہنچانے کی یا کسی عورت کہ عزت کو سخت نقصان پہنچانے کی یا کسی کی مال یا جائیداد کو نقصان پہنچانے کی سنگین قسم کی اگر دھمکی دے گا تو اسے قید با مشقت سات سال کی سزا کاٹنی پڑے گی
292
اس سیکشن کا مقصد فحاشی پھیلانے یا بے حیائی پھیلانے والے کے خلاف سخت ایکشن لینا ہے اگر کوئی شخص ف** والا پمپ فلیٹ بانٹے یا تصاویر بانٹے یا کوئی ویڈیو بنائے یا پھیلائیں یا کوئی اڈیو پھیلائے یا نشر کرے تو اس کے خلاف اس ایکشن کے تحت سخت کاروائی کی جائے گی
337(A)
اگر کسی کو زخم دیا جائے جس سے ہڈی کا ہڈی کا نظر انا ہڈی کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا ہڈی کا ٹوٹ جانا سر کی کھوپڑی کا کھل جانا دماغ کی جھیلی کا کھل جانا تو اس میں مختلف قسم کی دیت کا ذکر کیا گیا ہے یہ سیکشن مختلف قسم کی دیت اور محتر نوعیت کے زخم کو ڈیل کرتا ہے
170 , 171 PpC
یہ دونوں دفعات اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص سرکاری ملازم نہ ہو اور وہ خود کو سرکاری ملازم ظاہر کرے تو اس کو سیکشن 170 ڈیل کرتا ہے
جبکہ دوسرا سیکشن 171 اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کوئی شخص سرکاری ملازم یا عہدے دار نہ ہو مگر وہ کسی اپنے اپ کو سرکاری ملازم یا عہدے دار کے طور پر کوئی کام کرتا ہے یا کسی شخص کی تلاشی لیتا ہے یا کسی شخص کو کوئی حکم دیتا ہے مگر وہ سرکاری ملازم یا عہدے دار نہ ہو
ان دونوں سیکشنز میں دو سال سزا کا بتایا گیا ہے اور کچھ جرمانہ بھی ہوگا
342 ppc
کسی شخص کو غیر قانونی طریقے سے قید میں رکھنا یا محدود رکھنا یعنی اس کی نقل و حرکت کو بھی محدود کر دینا اور کسی شخص کو حب سے بجا میں رکھنا اس کی ازادی کو محروم کر دینا 342 سیکشن اس بات کی وضاحت کرتا ہے
148 , 149 PpC
یہ دونوں دفعات کا اکثر ذکر لڑائی جھگڑے دنگا فساد اور ہجوم میں اکٹھے ہونے اور اجتماع کی صورت میں اکٹھا ہونے سے متعلق ہے اور یہ دونوں دفعہ عام طور پر لڑائی جھگڑے ہجوم اجتماع میں اکٹھے ہونے کی صورت میں دونوں دفعات اکٹھی لگتی ہے
اب عدالت میں وکلا کے دلائل پر بات اتی ہے وکلا اپنے اپنے کلائنٹ کے حوالے سے دلائل دیتے ہیں جن میں سے ملزم کے وکیل صاحب دلائل دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ملزم پر جو بھی الزام لگائے گئے اس حوالے سے کوئی بھی ثبوت موجود نہ ہے ملزم کو بے وجہ اس کیس میں گھسیٹا گیا ہے اس حوالے سے کوئی ثبوت بھی پیش نہ کیا گیا ہے لہذا میرا کلائنٹ ضمانت کا حقدار ہے
اب اس کے برعکس کمپلیننٹ کے وکیل کی معاونت سے ڈی ڈی پی پی نے ملزم وکیل کے بیانات کی دلائل کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم کے خلاف کافی ثبوت موجود ہیں ملزم نے کافی سنگین نتائج کے جرائم کیے ہیں لہذا مقدمہ 497 کی ممانتی شق کے تحت اتا ہے اس لیے ملزم ضمانت کا حقدار بالکل بھی نہ ہے
عدالت فرماتی ہے کہ ہم نے ملزم وکیل کے دلائل سنے پھر کمپلینٹ وکیل کی معاونت سے ڈی ڈی پی پی کے دلائل سنے اور ریکارڈ کا بغور جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ
ملزم سے کوئی بھی بازیابی عمل میں نہ لائی گئی ہے کوئی بھی چیز اس سے برامد نہ ہوئی ہےاور ملزم کی طرف سے جو کمپلینٹ کو کال کی گئی تھی اس کا بھی کوئی ثبوت عدالت میں فراہم نہ کیا جا سکا ہے
جیسا کہ تحقیقات افیسر (IO) کے ذریعے کمپلینٹ کی کوئی ننگی ویڈیو برامد نہ ہوئی ہے اور نہ ہی ایف ائی ار میں درج اے ٹی ایم کی کوئی سی سی ٹی وی فٹیج عدالت میں جمع نہ کروائی گئی ہے
بالکل اسی طرح ملزم کے نہ واٹس ایپ پر اڈیو میسجز بھیجنے کے حوالے سے کوئی کسی ماہر کی رپورٹ نہ موجود تھی نہ ائی او نے اتنی زحمت کی کہ وہ جو تحقیقاتی افیسر ہے اس نے اتنی بھی زحمت نہ کی کہ وہ ایا یہ دیکھ لے کہ جس سم سے کال کی گئی ہے کہ وہ ملزم کے نام پر ہے بھی یا نہیں اس طرح یہ کیس شک میں پڑھتا جا رہا تھا صرف 50 ہزار کی ریکوری جو مدعی نے ملزم کو ٹرانسفر کیے ہیں صرف اس بابت ثبوت ملتا ہے مگر اے ٹی ایم کی سی سی ٹی وی فٹیج بھی نہ ہےمدعی نے 50 ہزار روپے ایزی پیسہ کے ذریعے ملزم کو ٹرانسفر کیے تھے اس حوالے سے ثبوت موجود ہے
اب کہانی میں ایک الگ ٹوسٹ ہوتا ہے ملزم اصل میں ایک ملزمہ ہے مطلب ملزم ایک عورت ہے اور اس کی چار ماہ کی دودھ پیتی بچی ہے جو اس کے ساتھ جیل میں قید ہے اب اگر عدالت عظمی کے کچھ چند ایک پرانے فیصلوں کو دیکھیں جس میں اس طرح کی اس نوعیت کے کیسز میں زیادہ تر ملزم کو ملزمہ کو بری کر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کی چھوٹی بچی یا چھوٹا بچہ ہو جو دودھ پیتا ہو اس طرح کے بے شمار عدالت عظمی سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں اور عدالت بھی پچھلے فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرتی ہے کہ
اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ کے چند ایک فیصلوں میں سے ایک فیصلہ یہ تھا بالکل اسی طرح ایک کیس ہے جس میں خاتون ملزما تھی اور اس کی ایک دودھ پیتی چھوٹی بچی تھی جس کی عمر 17 ماہ تھی اس کے ٹوٹل دو بچے تھے اور ایک بچہ دادی کے پاس رہتا تھا اور ملزمہ کی جو 17 ماہ کی بچی تھی وہ ملزمہ کے ساتھ جیل میں قید تھی اسی طرح ایک اور نصرت بنام دی سٹیٹ ا کیس کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں کیس کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ بلا شک ملزمہ کے ساتھ جو چھوٹے شیر خوار بچے یا بچی جیل میں قید ہے وہ معصوم ہے بلا شبہ دودھ پیتے بچے اور ان کی فلاں بے بوت کے لیے انہیں ماں کے ساتھ رکھنا ہی بہتر ہے مگر ان کا کوئی قصور نہیں کہ وہ ماں کے ساتھ جیل میں رہے مگر جیل کا ماحول اس شیر خوار بچے کے لیے اچھا نام ہے وہ اس کی مطابقت نہ رکھتا ہے لہذا عدالت چند ایک پچھلے فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتی ہے کہ شیر خوار بچے کی بہتری کو دیکھتے ہوئے اس کی فلاؤ بہبود کو دیکھتے ہوئے اور انصاف کے تقاضوں کو پرکھتے ہوئے بہتر یہی ہے کہ ملزمہ کو رہا کر دیا جائے تاکہ شیر خوار بچے پر کوئی برا اثر نہ پڑے
پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے ملزمہ کو بری کرتے ہوئے یہ رائے قائم کی کہ قانون کے 497 ضابطہ فوجداری کوڈ کے تحت ملزمہ کو انصاف کے تقاضوں کو پرکھتے ہوئے اور بچے کی فلاؤ بہبود کو دیکھتے ہوئے عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ 497 کے تحت ضمانت دی جا سکتی ہے اور اسی سیکشن کے تحت زبانت مسترد بھی کی جا سکتی ہے اور عدالت یہ بھی دیکھے گی کہ ایا ضمانت پر رہا کرنے کے بعد ملزبہ استغا سے کے گواہوں پر اثر انداز نہ ہو اور دوسرا ملزمہ کے بھاگ جانے کا اندیشہ نہ ہو اس لیے عدالت کو چاہیے کہ وہ ایک شورٹی بانڈ ملزبہ کو کہے عدالت میں جمع کروائیں اور قانون کے تقاضوں کو برکتے ہوئے ملزمہ کو اور بچے کی فلاؤ بہبود کو دیکھتے ہوئے ملزمہ کو رہا کیا جائے
اور ساتھ ہی سپریم کورٹ یہ بھی فرماتی ہے کہ ملزمہ کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش کرنے ہوں گے اور اگر مدعی پارٹی یہ ثابت کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو 497 ضابطہ فوجداری کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے گی عدالت نے ایک پرانی ججمنٹ جو کہ 2021 میں منظر عام پر ائی تھی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ایس سی ایم ار صفحہ نمبر 63 2021 اس فیصلے کو اس ججمنٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ان ججمنٹس کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر حقائق کی بات کریں تو اسے پریم کورٹ یا کوئی بھی عدالت یہ نہیں چاہتی کہ کسی ملزم کو بے قصور عدالت میں سڑنے کے لیے چھوڑ دیا جائے یا کسی بے گناہ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے پر مجبور کیا جائے ملزم کو شک کا پورا پورا فائدہ دیا جاتا ہے کیونکہ شک الزام ثابت کرنے کے لیے ناکافی ہوتا ہے اس لیے ملزم کو شک کا پورا پورا فائدہ دیا جاتا ہے اور عدالت بھی ان حقائق کو مدنظر رکھتی ہے کہ اگر اس کے خلاف ٹھوس ثبوت مل جائے تو عدالت بغیر وجہ کے کبھی بھی ضمانت نہیں دیتی مگر اگر کیس میں شک پیدا ہو جائے تو پھر عدالت ملزم کو شک کی بنا پر رہا بھی کر دیتی ہے اور اس کیس میں ایک ملزمہ ہے جس کی چار ماہ کی بچی ہے اس کی فلاح بود کو بھی عدالت مدنظر رکھنا چاہتی ہے
اور عدالت اس بات کو خصوصا مدنظر رکھتی ہے کہ ایا ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت ہے یا نہیں اگر ٹھوس ثبوت پائے جائیں تو عدالت اسے سزا کا مرتکب کرتے ہوئے سزا سنا دیتی ہے اور اگر ٹھوس ثبوت نہ ہو تو اسے شک کی بنا پر رہا کر دیا جاتا ہے
عدالت پھر یہ موقف اختیار کرتی ہے کہ کسی کو سزا کی بنا پر اس کی ضمانت کو رد نہیں کیا جا سکتا نہ قانونی طور پر نہ اخلاقی طور پر اگر اس کی ضمانت بنتی ہے تو اسے قانونی اور اخلاقی طور پر ضمانت دی جائے اور اگر استغاضہ مقدمہ اپنا ثبوت عدالت میں پیش کر دے تو عدالت ہرگز ملزم کو بری نہ کرے گی
اور اخر کار مقدمے کی تفتیش مکمل ہوئی جس میں درخواست گزار جو ہے وہ ایک خاتون ملزمہ ہے اور اس کا ایک چار ماہ کا چھوٹا بچہ ہے جو بھی دودھ پیتا ہے اور وہ گرفتاری کے بعد جیل میں اپنی زندگی گزار رہی ہے اور ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا جس میں درخواست گزار 497 ٹو کی ایپلیکیشن عدالت میں جمع کرواتا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس کو رہا کر دیا جائے لیکن ضمانتی بانڈز لے کر لہذا عدالت ایک لاکھ کے عدالتی بانڈز عدالت میں جلد از جلد ملزمہ کو ادا کرنے کا حکم دیتی ہے ایک لاکھ روپے کے بانڈز اور ملزمہ کو باریک کرتی ہے اور بچے کی فلاح بہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک لاکھ روپے کے شورٹی بانڈز عدالت میں جمع کروانے کا حکم دیتی ہے
اور عدالت ساتھ یہ بھی حکم دیتی ہے کہ اگر ملزمہ کسی خلاف ورزی میں ملوظ پائی گئی یا کوئی خلاف ورزی کرتی ہے تو عدالت 497 (5) پانچ کے تحت جو یہ عدالت نے بیل گرانٹ کی ہے اس کو کینسل کر سکتی ہے اگر کسی بھی غلط ایکٹیوٹی میں ملزمہ پائی جاتی ہے یا کوشش کرتی ہے کسی بھی غلط ایکٹیوٹی میں جانے کی یا کسی پیشی پر ملزمہ عدالت میں حاضر نہیں ہوتی یا اس کا کئی بار جانے کا بھاگ جانے کا ارادہ ہو تو عدالت ملزمہ کی یہ سہولت جو اسے 497 (2) کے تحت دی گئی ہے ختم کر سکتی ہے
ساتھ ہی عدالت یہ بھی واضح کرتی ہے صاف صاف الفاظ میں کہ شورٹی بانڈز کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ملزم اپنی من مانی کرے یا فرار ہو جائے ہاں شورٹی بانڈ کا مقصد یہ ہے کہ اسے عدالت کی تحویل سے نکال کر ضامنوں کی تحویل میں دینا اور اگر عدالت کو کبھی بھی ملزم کی ضرورت پڑے عدالت حکم کرے عدالت میں پیش ہو تو ملزم عدالت میں پیش ہوگا یا وہ کسی اور غلط ایکٹیوٹی میں پایا جاتا ہے تو عدالت ملزم کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے سکتی ہے اور اگر ملزم فرار ہو جاتا ہے یا عدالت میں پیش نہیں ہوتا تو عدالت شورٹی بانڈز کو کینسل کر دے گی اور ضامنوں کے خلاف بھی کاروائی ہوگی
اور عدالت امید کرتی ہے کہ کسی بھی طرح سے مقدمے کی سماعت کو متاثر نہیں کیا گیا عدالت نے قانون کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا ہے کہ ضمانت منظور کر لی جائے
2025 MLD 339
Comments
Post a Comment