چند افراد کا گھر میں زبردستی داخل ہونا قتل کی کوشش کرنا اور پھر قتل کر دینا اس پر قانون کیا کہتا ہے ائیے اس کو مزید تفصیل سے پڑھتے ہیں.
چند افراد کا گھر میں زبردستی داخل ہونا قتل کی کوشش کرنا اور پھر قتل کر دینا اور پھر سب کی ایک ہی نیت ہونا اس پر قانون کیا کہتا ہے ائیے اس کو مزید تفصیل سے پڑھتے ہیں
Section 302 PPC
Section 324 PPC
Section 452 PPC
Section 34 PPC
فائر آرم کیا ہے ؟
فائر ارم کا مطلب ہے کہ کوئی بھی بارود سے بھری چیز سے فائر کرنا پستول کلاشن کوف یا رائفل شارٹ گن مشین گن وغیرہ سے فائر کرنا اسے فائر ارم کہتے ہیں
ایک پرانی دشمنی کی بنا پر کسی پراپرٹی میں گھسنا قتل کی کوشش کرنا اور قتل کر دینا اس وقوعہ کو مشکوک کرنے والی باتوں میں سے جو ہتھیار برامد ہوئے انہیں فرینزی کے لیے نہیں بھیجا گیا اور شکایت کو نیندتا کا موقع پر موجود ہونا اور کوئی بھی فائر نہ لگنا یہ بھی ایک مشکوک بات تھی زخمی گواہ اور مادی گواہ کو بطور ثبوت پیش نہ کیا گیا اور فائرنگ کے بعد جو خالی خول بچ جاتے ہیں اور وہ اسلحہ جو استعمال ہوا ہے اسے فرینزک کے لیے بھیجا ہی نہیں گیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی وضاحت عدالت میں پیش کی گئی کہ ہم نے خول یا اسلحہ عدالت میں کیوں پیش نہ کی اس حوالے سے بھی کوئی وضاحت موجود نہ تھی
سب سے بڑھ کر مشکوک بات یہ تھی شکایت کنندہ کے مطابق اندھا دھند فائرنگ کی گئی جسے فائر آرم فائرنگ کی گئی مگر پھر بھی شکایت کو نندہ کو ایک بھی فائر نہ لگا ذرا سا زخم بھی نہ ایا کوئی گولی چھو کر بھی نہ گزری یہ بات سب سے زیادہ مشکوک تھی
کیونکہ ہوا میں چھ نامزد ملزمان تھے اور جن پر الزام یہ تھا کہ جنہوں نے اندھا دھند فائرنگ کی ہے اور یہی بات پورے کیس کو شک میں ڈال رہی تھی کہ شکایت کو نندہ کو ایک بھی فائر نہ لگنے کی اخر وجہ کیا ہو سکتی ہے شکایت کو نندہ کو کسی بھی قسم کا زخم نہ انا یا فائر ارم کی بنا پر کوئی زخم نہ نہ اس پورے وقوے کو شک میں ڈال رہا تھا
زخمی گواہ اور مادی گواہ میں کیا فرق ہے ؟
زخمی گواہ اس گواہ کو کہتے ہیں جو دوران وقوعہ زخمی ہو جائے اور پھر عدالت میں گواہی دے ایسے شخص کی گواہی عدالت میں زیادہ معتبر اور زیادہ اہم اس لیے سمجھی جاتی ہے کہ وہ موقع کا گواہ ہوتا ہے اور اس پر بھی حملہ ہوا ہوتا ہے جس کا اسے بخوبی علم ہوتا ہے کہ کون کون سے اشخاص اس میں شامل تھے جیسے کہ فائرنگ ہو ساتھ والے دو اشخاص مر جائیں اور ایک شخص زخمی ہو جائے جو یہ بچ جائے تو اس نے جو فائرنگ کرنے والے اشخاص تھے ان کو بخوبی دیکھا ہوا ہوتا ہے اس لیے ان اس کی گواہی زیادہ اہم اور معتبر سمجھی جاتی ہے اسے زخمی گوا کہتے ہیں
مادی گواہ اس گواہ کو کہتے ہیں جو وقوعہ کے وقت وہاں موجود تھا جس پر حملہ تو نہ ہوا مگر وہ یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا کہ کن اشخاص نے لوگوں پر فائرنگ کی اور کس شخص کی گولی سے دوسرا شخص ہلاک ہو گیا اور کس شخص کی گولی سے کوئی دوسرا شخص زخمی ہو گیا لیکن یہ مادی گواہ وہاں موجود تھا جو یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا مگر یہ زخمی نہ ہوا کیونکہ یہ کسی دور مقام سے یا کسی پتھر کے پیچھے سے یا کسی جگہ سے چھپ کر یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا ایسے گواہ کو مادی گواہ کہتے ہیں
اس وقوعہ میں مزید شک اس لیے بھی بڑھتا گیا کیونکہ ایک تو زخمی گواہ کا میڈیکو لیگل سرٹیفیکیٹ موجود نہ تھا اور دوسرا زخمی گواہ اور شکایت کنندہ کا بھائی موقع پر موجود تھے انہیں ٹرائل میں پیش نہ کیا گیا اس لیے یہ وقوعہ مزید شک میں الجھتا گیا ۔
دوسرا عدالت نے قانون شہادت کے ارٹیکل 129 g کے تحت یہ بھی قیاس کیا تھا کہ اگر یہ دونوں گواہوں کو استغاثے میں پیش کیا جاتا تو شاید استغاثے کا رخ ہی بدل جاتا یعنی ان کی گواہی کیس کی مخالف سمت میں چلی جاتی
Article 129g:
قانون شہادت کا یہ ارٹیکل ہمیں یہ بتاتا ہے کہ عدالت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کیس کے دوران کسی بات کا قیاس کر سکتی ہے جیسے کہ اگر ایک فریق کی گواہی اس کے کیس میں دلوائی جاتی تو وہ گواہی مخالف فری کے حق میں جا سکتی تھی اور استغا سے کے خلاف جا سکتی تھی تو عدالت کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کا معاملات کو قیاس کر سکتی ہے
مدعی نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ کہ ملزم نے پرانی دشمنی کی بنا پر اپنے ساتھ جو ملزمین ہیں انہیں اکسانے کا بھی کام کیا ہے اس کی وجہ یہ پرانی دشمنی تھی
عدالت نے ہر ملزم کو دو سال قید با مشقت اور 10 ہزار روپے جرمانہ کیا اور اگر کوئی یہ جرمانہ ادا نہیں کرتا تو اس کو تین ماہ مزید بآسانی قید میں رکھا جائے گا اور یہ دو سال کی قید سیکشن 148 پی پی سی کے تحت دی گئی ہے
اور اگر اب ہم بات کریں سیکشن 302 B پی پی سی اور سیکشن 149 کی تو اس کے تحت سزائے موت کی سزا سنائی گئی ہے
اور سزائے موت بھی اس طرح کی کہنے گردن سے لٹکا کر تب تک رکھا جائے گا جب تک قابل احترام لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے تصدیق نہ ہو جائے اور ہر مجرم سیکشن 544 اے CrPc کے تحت متوفی کے وارثوں کو ایک لاکھ روپے بطور معاوضہ دیے جائیں گے اور ایک لاکھ کی عدم دستیابی کی صورت میں مزید چھ ماہ کی قید اور کاٹیں گے مطلب یہ ہے کہ عدالت نے یہ حکم دیا ہے کہ سزائے موت کے ساتھ ساتھ وہ شخص جو قتل ہوا ہے اس کے وارثوں کو ایک لاکھ روپے جرمانہ یا معاوضے کے طور پر دیا جائے گا اور ان میں سے اگر کوئی شخص ملزموں میں سے اگر کوئی شخص ایک لاکھ روپیہ دینے سے قاصر ہو تو وہ چھ ماہ کی مزید قید اور کاٹے گا۔
اور اگر اب سیکشن 324 اور سیکشن 149 پی پی سی کی بات کریں تو اس کے تحت 10 سال کی ریگولر سزا سنائی جائے گی اور ب ہزار روپے ہر مجرم ہر ملزم 20 ہزار کے حساب سے متوفی کے وارثوں کو ادا کرے گا اور عدم دستیابی کی صورت میں مزید تین ماہ سخت قسم کی قید کاٹے گا اور اب بات کرتے ہیں سیکشن 452/149 کی کی تو جو ملزموں نے مدعی کے گھر میں داخل ہونے کی گستاخی کی ہے اس کے تحت ملزموں کو تین سال کی ریگولر قید اور ہر ملزم کو 10 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے جس کی عدم دستیابی کی صورت میں مزید تین ماہ کی قید سنائی جائے گی
اس کے ساتھ ساتھ ملزمان نے خوف و حراس عدم تحفظ اور دہشت گردی جیسے کام کیے ہیں مطلب ایک کھلی جگہ پر فائر کرنا جس سے لوگوں میں خوف و راز پیدا ہو اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو جو دہشت گردی کے زمرے میں ائے سرعام فائرنگ کرنا اس لیے ملزمان کو اینٹی ٹیررزم ایکٹ کی دفعہ سات کے تحت سزائے موت کی سزا سنائی جاتی ہے اور ایک لاکھ روپے جرمانہ لگایا جاتا ہے جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں چھ ماہ کی قید کا مزید اضافہ کر دیا جائے گا اس لیے ملزمان کو یہ قیمت ادا ضرور کرنی پڑے گی مگر نہ وہ چھ ماہ کی سزا اور کاٹیں گے
اور یہ سب سزائیں ایک ہی وقت میں چلائی جائیں گی
اب جب کہ ملزمان کو سزائیں سنائی جا چکی تھی تو ملزمان نے ایپیلانٹ عدالت کا رخ کیا جس میں انہوں نے سزا اور سزائے موت کو چیلنج کیا ایپلٹ کورٹ میں جانے کا فائدہ یہ ہوا کہ ملزم کے ہم راہی ملزمان میں سے کچھ ملزمان کی کچھ کے سزا ختم ہو گئی اور انہیں بری کر دیا گی
اب ہوا یہ کہ اپیل والی عدالت نے جو ملزمان کو سزائے موت سنائی گئی تھی اس کو کم کر کے عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا اور باقی سزائیں جو ٹرائل کورٹ نے عائد کی تھی جس میں جرمانے والی سزائیں بالکل ویسی کی ویسی ہی اپلائی ہوتی ہیں
اپیل میں ایک اور بات کی گئی جو سیکشن 302 پی پی سی کا تھا وہ ویسے کا ویسا ہی رہا ہاں مگر اس کی سزا سزائے موت سے کم کر کے عمر قید کر دی گئی اور ساتھ میں ہدایت کی گئی کہ جو ٹرائل کورٹ نے معاوضے کی رقم کا کہا تھا وہ ادا کیا جائے
اس کے بعد جو جرم 452 324 34 کے مطابق جو سزا دی گئی تھی اسے برقرار رکھا گیا
مگر ہاں البتہ جو اینٹی ٹیررزم ایکٹ سیکشن 7 کے تحت جو سزا دی گئی تھی اسے ختم کر دیا گیا
دوسری طرف مدعی نے بھی اپیل کی کہ ان کی سزاؤں کو برقرار رکھا جائے اور جو ملزم بری ہو گئے تھے ان کو دوبارہ سزا دی جائے اور جن ملزموں کی سزائے کم کر دی گئی ہیں ان کی سزائے بڑھا دی جائے
مگر بڑے افسوس کے ساتھ دوران سزا ایک ملزم جیل میں ہی انتقال کر گیا جس کی وجہ سے اس کے خلاف جو سیکشن لگائے گئے تھے وہ ختم کر دیے گئے
اب عدالت نے بغور جائزہ لیتے ہوئے اور اٹارنی جنرل اور وکیل کی بات سنتے ہوئے اور استغاثہ کے موقف کے بعد جائے وقوعہ سے کلاشنکوف کے 24 خالی خول 12 بور کے دو خالی کارتوس ایک ضائع شدہ گولی اور ایک 12 بور کا ضائع شدہ کارتوس جائے وہ کوا سے برامد ہوا۔
رائفل 222 بور رائفل 12 بور رپیٹر دو کلاشن کوف 30 بور ماؤزر یہ سب ملزمان سے برامد ہوئی وہ ملزمان جنہیں سزا ہوئی اور وہ ملزمان جنہیں بری کر دیا گیا مگر فائر عام تجزیے کے لیے ان کو نہ بھیجا گیا پورے مقدمے میں استغاثہ اس بات پر خاموش رہا جس کی بنا پر کچھ کو باریک کر دیا گیا کچھ ملزمان کو سزا دی گئی اور کچھ ملزمان کی سزا کم کر دی گئی
اس کیس میں مدعی مرحوم کا بیٹا ہے اور تمام متوفی اور زخمییوں کا خونی رشتہ دار ہے جس کے والد صاحب کو قتل کر دیا گیا اور دوسرے رشتہ داروں کو زخمی کر دیا گیا
واقعے کی رات مدعی اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ اپنے کمرے کی چھت پر سو رہا تھا جبکہ اس کے والد صحن میں سو رہے تھے ساتھ میں متوفی اور وہ زخمی رشتہ دار بھی سو رہے تھے
صبح صبح تقریبا 5:30 بجے موٹر سائیکلز کی اواز سنی جو کہ ان کے گھر کے باہر ا کر رکے اور ساتھ ہی انہوں نے دیکھا کہ ملزمان اسلحہ لہراتے ہوئے ان کے والد متوفی اور زخمی رشتہ دار پر فائرنگ کر رہے ہیں
سارے بکوے میں گواہ نمبر 14 نے تمام ملزمان کے ہاتھوں میں جس اسلحے کا ذکر کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ فلاں اسلحہ سے یہ گولی نکلی یا یہ کارتوس نکلا اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ گواہ نمبر 14 موقع پر موجود تھا جس نے واضح طور پر چھ ملزمان کے نام لیے اور ان کے ہاتھوں میں الگ الگ اسلحہ کا ذکر کیا اور الگ الگ کار توس اور گولی کا ذکر کیا اور وقوعہ کو بڑے قریب سے دیکھا مگر پھر بھی اس پر کسی قسم کا کوئی زخم یا گولی کا یا کارتوس کا کوئی نشان نہ تھا جس سے یہ وقوعہ مشکوک ہو گیا کیونکہ گواہ نمبر 14 نے یہ بھی بتایا کہ ملزمان نے اندھا دھند فائرنگ کی ہے
اور گواہ نمبر 14 کی وہاں موجودگی اور بڑے حساب سے مختلف بندوقوں کی مختلف گولیاں متوفی اور زخمی رشتہ داروں کو لگنا اور بالکل ٹھیک اور صحیح بتانا اور اندھا دھند فائرنگ ہونے کے باوجود بھی اس کو کوئی فائر نہ لگنا شک کی بنیاد بنتا ہے
اگر دوسرا پہلو دیکھا جائے تو پہلے سے دشمنی بھی تھی ان دونوں کے درمیان اس کو دیکھتے ہوئے اس بات کو غور سے خارج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ گواہ نمبر 14 چشم دید گواہ بھی ہے جس نے بڑے بغور طریقے سے بندوقوں سے گولیاں نکلتے ہوئے دیکھا اور متوفی اور زخمیوں کو لگتے ہوئے دیکھا
اب جب کہ مدعی کے دو بھائی جو اس کے ساتھ کمرے کی چھت پر سو رہے تھے نے بھی موقع پر وقوعہ ہوتے ہوئے دیکھا ہوگا ان میں سے ایک زخمی کا کوئی میڈیکو لیگل سرٹیفیکیٹ موجود نہ تھا اور دوسرا اس کا بھائی جو موقع کا چشم دید گواہ تھا کو بھی گواہ کے طور پر پیش نہ کیا گیا
اب چونکہ قانون شہادت کا ارٹیکل 129 عدالت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ قیاس کر سکتی ہے کہ ایا اگر یہ دونوں گواہ اگر پیش کیے جاتے تو یہ مدعی مقدمہ کو خراب کر سکتے تھے اور ملزم پارٹی کو فائدہ دے سکتے تھے یہ قیاس ارائی پر بات کی جاتی ہے
اب صورتحال یہ ہے کہ زخمی گواہوں کی گواہی میڈیکو لیگل سے مختلف ہو گئی ہے
دوسرا 44 رائفل کے کارتوس اور مختلف بندوقوں کی جو گولیاں اور کارتوس برابر ہوئے ان کو فائر ار م کے پاس نہیں بھیجا گیا
مدعی کے بیانات بھی مشکوک ہو گئے ہیں جس سے اب یہ کیس مشکوک ہوتا جا رہا ہے
عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ استغاثہ مقدمہ الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے ملزموں کی بریت بالکل ٹھیک ہے اور انہیں شک سے بڑھ کر انہیں بریت دی گئی ہے اور جو ا اپیل عدالت نے ساتھی ملزموں کو بری کیا تھا وہ بالکل ٹھیک کیا تھا وہ کسی بھی لا قانونیت یا بے قاعدگی بالکل نہیں تھی ساتھی ملزموں کی بریت بنتی تھی
ملزموں کی طرف سے جو اپیل کی گئی تھی اس میں انہیں بری کر دیا گیا ہے
جبکہ استغاثہ مقدمہ کی طرف سے بھی اپیل کی گئی تھی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ ساتھی ملزموں کی جو بریت ہوئی تھی اسے منسوخ کیا جائے اور انہیں دوبارہ سزا دی جائے اور جب کہ جس ملزم کی سزائے موت سے عمر قید کی گئی تھی اسے دوبارہ سزائے موت دی جائے استغاثہ مقدمہ کی یہ اپیل خارج کر دی جبکہ ملزموں کی اپیل منظور کر لی گئی۔
مدعی چشم دید گواہ اور زخمی گواہ ہوں کہ بیانات میں تضاد تھا مطلب ان کے بیانات ایک دوسرے سے ملتے نہیں تھے جس کی بنا پر ملزم کو بری کر دیا گیا اور ان کی گواہی مشکوک ہو گئی استغاثہ ملزم اور بری ہونے والے ملزمان کے خلاف ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا جس کی بنا پر انہیں بری کر دیا گیا
جبکہ دوسری طرف مدعی استغاثہ نے جو اپیل کی تھی جس میں اس نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جو ملزمان بری کر دیے گئے ہیں انہیں دوبارہ سزا دی جائے اور جس ملزم کی یا ملزمان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کیا گیا تھا انہیں دوبارہ سزائے موت دی جائے مدعی اس طرح سے کی یہ اپیل خارج کر دی گئی
2025 SCMR 45

Comments
Post a Comment