Skip to main content

نکاح کے خاتمے کے لیے دعوی ۔ مگر دعوی خارج کر دیا گیا\ ظلم کی بنا پر خلع کا دعوی مگر دعوی خارج

 نکاح کے خاتمے کے لیے دعوی ۔ مگر دعوی خارج کر دیا گیا

             ظلم کی بنا پر خلع کا دعوی مگر دعوی خارج



                                            مسز طہارت فردوس 

                                                      بنام

                                            امتیاز خان وغیرہ


رٹ پٹیشن نمبر 4841 سال 2016






مدعیہ نے مدعا علیہ پر پر کیس کیا جس میں اس نے یہ بیان کیا کہ اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا ہے اور تشدد کرتا ہے مگر وہ عدالت میں بیوی عدالت میں یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا ہے یا تشدد کرتا ہے جس کی بنا پر عدالت نے مشاہدہ کرتے ہوئے کیس کو خارج فرما دیا کیونکہ بیوی یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ شوہر اس پر ظلم کرتا ہے



اور ہائی کورٹ نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ میاں بیوی کو زور زبردستی کی بنا پر اکٹھے نہیں رکھا جا سکتا اگر عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے وہ عدالت میں خلع دائر کر کے شوہر سے علیحدگی کا کیس کر سکتی ہے اور وہ شوہر سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے



اور اگر میاں بیوی اللہ کی حدود جو اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ ہے کو برقرار نہ رکھ سکیں تو وہ علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں اس بنا پر کہ اگر وہ اللہ کی حدود کو برقرار نہ رکھ سکیں تو اس صورت میں اسلام انہیں علیحدگی  کا اختیار دیتا ہے



اب صورتحال یہ ہوئی کہ بیوی کسی بھی صورت اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کو تیار نہ تھی حالات بہت کشیدہ تھے ایسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے خلع کا حکم دیا گیا اب عدالت شوہر کو اس کے مد مقابل میں فوائد دینے کے لیے تیار تھی جس سلسلے میں عدالت نے شوہر کو بیوی کے ساتھ مسلسل رہنے کو بھی ایک فائدہ کہا ہے اسی طرح اسی طرح مالی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے حکم دیا کہ جو حق مہر جزوی یا سارے کا سارا شوہر کو واپس کیا جائے بیوی انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی جس طرح شوہر نے بیوی کے ساتھ رہ کر فوائد حاصل کی اسی طرح بیوی نے شوہر کے ساتھ رہ کر بھی فوائدہ حاصل کی ہے اب بیوی کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک لاکھ نقدی اور پانچ تولے سونا خلع کے عوض شوہر کو واپس کرے اور دوسری طرف اسے یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھر داری کو اسی طرح برقرار رکھے یا شوہر کا ایک لاکھ نقدی اور پانچ تولہ سونا اسے واپس کرے



اب چونکہ بیوی نے فیملی عدالت میں خلع کا کیس دائر کیا تھا مگر فیملی عدالت میں وہ مرد کی شوہر کی ظلمت کو ثابت نہ کر سکی اور اس کی خلع نہ ہوئی پھر اس نے اپیل دائر کی تب بھی اس کی خلع کا حکم نہ ہوا پھر رٹ پٹیشن ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ہائی کورٹ نے نیچلی دونوں عدالتوں کے فیصلے کو کلعدم قرار دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اگر بیوی اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہو تو وہ خلع کا حق رکھتی ہے اور جو فیصلہ نے چلی عدالتوں نے ازدواجی زندگی و برقرار رکھنے کے لیے دیا تھا ہائی کورٹ نے اس کو کلعدم قرار دے دیا۔



اب جب کہ بیوی نے شوہر کے خلاف خلع کا دعوی دائر کیا اور ساتھ میں حق مہر کی ڈیمانڈ بھی کی جو کہ ایک لاکھ نقدی پانچ تولے سونا اور 10 مرلے کا ایک مکان تھا شوہر بیرون ملک مقیم تھا جبکہ بیوی پاکستان میں سرکاری ملازمہ تھی جب شروع شروع میں شادی ہوئی تو وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے مگر اس کا رویہ شروع سے تھوڑا ظالمانہ تھا جب کہ مدعیہ ایک ٹانگ سے معذور تھی اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا تھا اور مارتا پیٹتا تھا اس کا رویہ تھوڑا سا ظالمانہ تھا کیونکہ وہ ایک ٹانگ سے معذور تھی تو اس نے گھر بعد رکھنے کی بہت کوشش کی کہ کسی طرح اس کا گھر اباد رہے اور وہ ایک سرکاری ملازمہ بھی تھی



بیوی نے یعنی عورت نے دعوے میں یہ لکھا تھا کہ اس کا شوہر اس پر ظالمانہ تشدد کرتا ہے اسے مارتا پیٹتا ہے اور گھر سے نکال دیتا ہے اور جب عدالت نے شور کو نوٹس بھیجے تو عدالت کے کہنے پر جب شوہر عدالت میں پیش ہوا تو اس نے تمام بات کی تردید کر دی نہ تو وہ ظالمانہ تشدد کرتا تھا اور نہ مارتا پیٹتا تھا اور حتی کہ حق مہر اس نے جو بیوی کو ادا کیا تھا وہ واپس لینے کا پابند تھا کیونکہ عورت خلا لے رہی تھی اور اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے صلح کے لیے کافی جرگے بٹھائے بیوی کو واپس لانے کی بہت کوشش کی اور جب شہادت میں گواہان اور بیوی یہ ظالمانہ تشدد ثابت نہ کر سکی جو کہ اس نے سراسر غلط اور بے بنیاد اور جھوٹ کی بنا پر شوہر پر الزام لگایا تھا تو عدالت نے حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ دوبارہ بات ہو جائے کیونکہ وہ ظالمانہ تشدد ثابت کرنے میں ناکام تھی اسی طرح عدالت نے بیوی یعنی درخواست گزار کا دعوی خارج کر دیا اور اسے ازدواجی زندگی برقرار رکھنے کی منظوری دے دی



درخواست گزار نے فیملی عدالت میں کیس دائر کیا جس میں اس نے الزام لگایا کہ ایا شوہر اس پر ظلم و زیادتی کرتا ہے لیکن وہ عدالت میں یہ ثابت کرنے سے ناکام رہا دعوی خارج کر دیا گیا 

درخواست گزار نے اپیل دائر کی جس میں اس نے عدالت میں ظلم و جبر کی بنا پر خلع کی ڈیمانڈ کی لیکن اپیل میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا اپیل بھی خارج کر دی گئی پھر درخواست گزار نے ایک اور درخواست دائر کی جس میں اس نے ایک لاکھ نقدی پانچ تولے سونا اور ایک 10 مرلے مکان کی استدا کی۔

سب سے پہلے ایک بات بتانا چاہوں گا جس میں درخواست گزارنے زبانی طلاق کا ذکر کیا ہے جسے پیراگراف نمبر 7 میں ذکر کیا گیا ہے کہ مدعا علیہ نے زبانی طلاق دی تھی لیکن جہاں تک ہائی کورٹ کے جج نے مطالعہ کیا اور وہ مطالعہ شروع سے لے کر اخر تک ہر پیراگراف کا لفظ با لفظ مطالعہ کیا گیا مگر



درخواست گزار نے جو موقف زبانی طلاق کا لیا تھا وہ ریکارڈ پر نہ تھا اس لیے اس بات کی تصدیق نہ ہو سکی کہ زبانی طلاق دی گئی تھی درخواست گزار کا یہ موقف نہیں مانا جا سکتا

اور دوسرا درخواست گزار نے یہ موقف لیا تھا کہ اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا ہے جسے وہ عدالت میں ثابت کرنے سے قاصر ہے اور عدالت میں یہ بات وہ ثابت نہ کر سکی جس کی وجہ سے فیملی عدالت اور ایپلانٹ عدالت نے خلع دینے سے انکار کر دیا



اب جب ہائی کورٹ میں گئے تو ہائی کورٹ نے اس بات کا جائزہ لیا تو ہائی کورٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ نچلی دو عدالتوں کے فیصلے درست ہیں اب ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ میاں بیوی اگر دوبارہ میں ملاپ یا ازدواجی زندگی برقرار رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتے ہیں اور اگر وہ لیدگی اختیار کرنا چاہیں تو وہ بھی کر سکتے ہیں سلامے میں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ زبردستی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہا جا سکتا



اللہ تعالی کی عطا کردہ حدود کے اندر اگر میاں بیوی کا گزار نہ چل رہا ہو تو اس کا مناسب حل علیحدگی ہے مگر ابھی یہاں پہ ایک نئی بات جو سامنے اتی ہے وہ یہ ہے کہ درخواست گزار مدعا علیہ کی دوسری بیوی ہے جس کی بنا پر وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہے اور وہ بار بار یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کے شوہر نے اسے زبانی طلاق دے دی ہے مگر جو ریکارڈ سے ثابت نہ ہوتی ہے فیملی عدالت نے جب خلع نہ دیا اور ایپیلانٹ عدالت نے بھی مگر اس کے باوجود وہ ہائی کورٹ میں رٹ کرتی ہے کہ اسے اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہنا ہے بار بار اصرار کرنے کے باوجود اخر کار ہائی کورٹ اس فیصلے پر پہنچتی ہے کہ ان کی علیحدگی ہی بہتر ہے مگر شوہر ابھی بھی اس سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن بے سود 

اب یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نکاح نامہ میں حق مہر ایک لاکھ روپے نقد اور پانچ تولے سونا جو کہ موجود ہے اور شرط کے مطابق اور عورت خلع لینے کے بعد حق مہر واپس کرنے کی پابند ہے اب دیکھنا یہ ہے



وہ ایک لاکھ روپے نقد اور پانچ تولے سونا واپس کرتی ہے یا نہیں 

یہاں پہ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ایک 10 مرلے کا مکان بھی جو حق مہر میں موجود ہے وہ واپس کرنے کی مجاز ہے لیکن عورت یا ایک لاکھ روپے نقد اور پانچ تولے سونا واپس کرنے کے لیے تیار ہے مگر مکان وہ نہ دینے پر رضامند ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مکان اس نے خود خریدا ہے مگر شوہر اس بات سے انکاری ہے اخر کار شوہر نے بھی یہ تسلیم کیا کہ وہ اس کو طلاق دینے کے لیے تیار ہے مگر وہ ایک لاکھ روپے نقد اور پانچ تولے سونا اور مکان جو وہ ہرگز 10 مرلے کا مکان جو وہ ہرگز اس کو دینے پر امادہ نہ ہے



اگر اس کے پس منظر میں جائیں تو بات وہی اتی ہے کہ ایا حق مہر بیوی نے شوہر کو واپس کیا یا نہیں اب اس بات کی تکرار دو وکلاء میں شروع ہوتی ہے 

پہلے وکیل صاحب خلع اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک کہ بیوی اپنے شوہر کو حق مہر واپس نہ کر دے اصولا اصول بھی یہی بنتا ہے کہ اگر کوئی عورت عدالت سے خلع لینے جائے تو اس سے پہلے شوہر کو حق مہر واپس کرنا ہوتا ہے پھر اس کے بعد اگے کی کاروائی شروع ہوتی ہے تب جا کر عورت کو خلع ملتی ہے اور مرد کو حق مہر واپس دیا جاتا ہے

اب بعض عدالتوں میں عدالت حکم دیتی ہیں کہ پورے کا پورا حق مہر واپس کر دیا جائے بعض عدالتیں کہتی ہیں کے آدھا حق مہر واپس کیا جائے اب یہ عدالت کی ثواب دید پر فیصلہ ہوتا ہے 

دوسرے وکیل صاحب کہ اگر ایک عورت غریب ہے اس کے پاس واپس دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو وکیل صاحب نے سوالیہ نظروں سے جج صاحب کی طرف دیکھا اور کہا تو کیا ایسی عورت اپنا حق کھو دے گی کہ وہ کیا اسے انصاف نہیں ملے گا کہ ایا وہ خلا کی حقدار نہ ہوگی صرف اس بنا پر کہ وہ حق مہر واپس کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ ایک غریب عورت ہے 

تب دوسرے وکیل صاحب نے کہا یہ تو اصول کی بات ہے اگر کوئی عورت خلا لیتی ہے تو وہ حق مہر واپس کرے گی اور یہ اصول ایک لمبی مدت سے چلتا ا رہا ہے اور اصولاً بات بھی یہی ہے



اب بات عدالت کے فیصلے پر منحصر کرتی ہے کہ عدالت کس طرح باہمی فائدے کو ترجیح دیتی ہے بالکل اسی طرح عدالت باہمی فائدے کو دیکھتے ہوئے عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں عورت کو بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں اسی طرح عورت کا مرد کے ساتھ رہنا بھی ایک فائدہ ہے اور جہاں تک مالی معاملات کی بات ہے تو اس کو اس طرح عدالت ایڈجسٹ کر سکتی ہے کہ دونوں کو فائدہ دیا جائے 

اب چونکہ درخواست گزار ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے پاس کوئی چیز بھی نہ ہے تو اس صورت میں عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جزوی یا سارا حصہ مرد کو واپس کیا جائے مگر پھر عدالت عورت کی طرف دیکھتی ہے جو کہ غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو اس بنا پر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ایک لاکھ نقدی اور پانچ تولہ سونا مرد کو واپس کیا جائے جبکہ مکان جو دس مرحلے کا تھا یا وہ پلاٹ تھا وہ عورت کے پاس رہے گا

ZC/92/P درخواست کا فیصلہ کر دیا گیا

Eg: 2019 CLC 1562..

Comments

Popular posts from this blog

SHORTS CITATIONS ABOUT ABDUCTION AND KIDNAPPING IN URDU

SHORTS CITATIONS ABOUT ABDUCTION AND KIDNAPPING IN URDU 1.  363 ت پ کیس 3/4 سالہ نا بالغ کو اغوا کرنا سنگین جرم ہے جرم قابل راضی نامہ نہ ہے مدعی فریق کے راضی نامہ کرنے کے باوجود ملزم ضمانت کا حقدار نہ ہے 2017 YLR 744 2. 365 ت پ کیس میں محض اندراج ایف ائی ار میں تاخیر کی بنا پر ملزم ضمانت کا حق نہ دیا جائے گا 2013 CrLJ 254 365 PPC 3. 365 ت پ کیس میں ملزم اس بنا پر ضمانت کا حقدار نہ ہوگا کہ جرم ممنوعہ کلاز میں فعال نہ کرتا ہے 2011 PCrLJ 943 Prohibitory clause ایسی کلاز میں موت کی سزا عمر قید کی سزا یا وہ سزا جو 10 سال سے زیادہ ہو اور ملزم کی ضمانت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کوئی معقول شک کی بنیاد سامنے نہ ا جائے Non prohibitory clause ایسی کلاز جس میں سزا کم ہوتی ہے یا 10 سال سے کم ہوتی ہے اس کلاز میں ضمانت ٹھوس اور معقول وجوہات کی بنا پر دی جاتی ہے 4.  365 ت پ کیس میں ملزمہ کو شک کی بنا۶ پر ملوث کیا گیا ضمانت قبل از گرفتاری منظوری ہوئی  2017 MLD 1091 5. 365 ت پ کیس میں مابین فریقین سابقہ مقدمہ بازی کی بنا پر ضمانت قبل از گرفتاری منظور ہوئی 2015 CrLJ 96 6. 364 A ت پ کیس میں ...

کیا سیشن کورٹ ایک کیس کو تحصیل یا دوسرے ضلع میں ٹرانسفر کر سکتی ہے ؟ ہائی کورٹ کس سیکشن کے تحت کیس کو ٹرانسفر کر سکتی ہے ؟

  کیا سیشن کورٹ ایک کیس کو تحصیل یا دوسرے ضلع میں ٹرانسفر کر سکتی ہے ؟ ہائی کورٹ کس سیکشن کے تحت کیس کو ٹرانسفر کر سکتی ہے ؟ Transfer a case پاکستان میں بہت سی عدالتوں کے قیام موجود ہیں جن میں سے قابل ذکر سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ ہے سیشن کورٹ ڈویژن کے حساب سے سب سے بڑی عدالت ہوتی ہے یہاں پر لوگوں کو انصاف فراہم کیا جاتا ہے مختلف عدالتیں ڈویژن لیول پر قائم کی جاتی ہیں جو وہاں سے کیس ڈگری ہوتا ہے تو ہاری ہوئی پارٹی اپیل کے لیے سیشن کورٹ میں جاتی ہے  بالکل اسی طرح ہائی کورٹ کا بھی ایک الگ مقام ہے جو کہ صوبائی سطح پر بنائی جاتی ہے اس کا کام پورے صوبے کے وہ کیسز جو سیشن کورٹ سے ڈگری ہوتے ہیں ان کے خلاف اپیل یا رٹ ہائی کورٹ میں کی جاتی ہے جہاں ہائی کورٹ ماتحت عدالتوں کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے وہی فیصلہ برقرار رکھتی ہے یا پھر ان فیصلوں میں نقائص تلاش کر کے ان فیصلوں کی تردید کر کے ایک نئی فائنڈنگ ایک نیا فیصلہ دیتی ہے سیشن کورٹ کے پاس تمام ماتحت عدالتوں کے اختیارات ہوتے ہیں ماتحت عدالتوں میں فیملی عدالتیں دیوانی عدالتیں اور مجسٹریٹ کی عدالتیں ہوتی ہیں جب دیوانی عدالتوں میں کیس ڈگری...

CRIMINAL LAW CASE CITATIONS

 CRIMINAL LAW CASE CITATIONS MLD = MONTHLY LAW DIGEST  PCRLJ = PAKISTAN CRIMINAL LAW JOURNAL  SCMR = SUPREME COURT MONTHLY REVIEW  PLD = PAKISTAN LAW DIGEST  YLR = YEARLY LAW REPORTER CLC = CIVIL LAW CASES  KLR = KARACHI LAW REPORTS NLR = NATIONAL LAW REPORTER PLJ = PAKISTAN LEGAL JUDGMENTS PLJ (CR.C) =  PAKISTAN LEGAL JUDGMENTS - CRIMINAL CASES PLJ (CIV.C) =  PAKISTAN LEGAL JUDGMENTS - CIVIL CASES SCJ = SUPREME COURT JOURNAL  P CR. = PAKISTAN CRIMINAL CASES ALD = ALMI LAW DIGEST  PLR = PAKISTAN LAW REPORTS PLJ (REV) PLJ REVENUE CASES CITATIONs Image generated using AI tools for informational use only EX. 2025 MLD 1502 2025 = یہ وہ سال ہے جس میں کیس کا فیصلہ ہوا اور رپورٹ  شائع ہوئی MLD = یہ وہ جرنل یا کتاب ہے جس میں فیصلہ شائع ہوا  1502 = اس جرنل یا کتاب کے اندر صفحہ نمبر جہاں سے کیس شروع ہوتا ہے  COURT = HIGH COURT , SUPREME COURT عدالت میں ایسے حوالوں کا استعمال کیسے ہوتا ہے؟ مائی لارڈ اس نوعیت کا فیصلہ MLD 1502 2025 می...

CONDONATION OF DELAY AND LIMITATION ACT

 CONDONATION OF DELAY AND LIMITATION ACT 1908 CONDONATION OF DELAY   کنڈونیشن اف ڈیلے اس قانونی جملے کا مطلب ہے کہ کسی قانونی کاروائی میں اپ لیٹ ہو جائیں جیسے مثال کے طور پر اپ نے ایک کام 9 جولائی 2025 کو کرنا تھا مگر کچھ ایسی وجوہات اگئی ٹھوس وجوہات کی بنا پر اپ وہ کام نہیں کر سکے لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد جب اپ کی وہ ٹھوس وجوہات مجبوریاں ختم ہوئی تو اپ نے وہ کام کیا جو اپ کرنا چاہ رہے تھے تو اسی طرح عدالتی کاموں میں بھی ایک کام جو مثال کے طور پر 9 جولائی کو ہونا تھا وہ نہیں ہوا اب اس کو ہم 1 اگست کو کرتے ہیں تو اس طرح جو درمیان میں Gap اگیا ہے وقت کا اس وقت کو اب عدالت میں explain کرنا ہے کہ ہم اتنے دن کہاں رہے ٹھوس وجوہات کی بنا پر اسے condonation of delay کہتے ہیں SECTION 5 OF LIMITATION ACT 1908 کنڈونیشن اف ڈیلے کو لیمیٹیشن ایکٹ کا سیکشن 5 ڈیل کرتا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی درخواست گزار ہے یا اپیل کنندہ درخواست عدالت میں جمع کروانے یا اپیل عدالت میں کرنے سے تاخیر کر گیا ہے  EXAMPLE: مطلب مثال کے طور پر کسی شخص نے ایک مخصوص جگہ 10 دن کے اندر پہنچنا تھا مگ...

SHORTS CITATIONS ABOUT ABDUCTION AND RAPE IN URDU

 SHORTS CITATIONS ABOUT ABDUCTION AND RAPE IN URDU 1: ناجائز اسلحہ کی روک تھام کیلئے Punjab Arms Ordinance میں انقلابی ترامیم۔ انتہائی سخت سزائیں اور انتہائی بھاری جرمانہ۔ Punjab Arms (Amendment) Act 2025 (XLI of 2025). غیر ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنے پر زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال کم از کم سزا تین سال کم از کم جرمانہ دس لاکھ۔ غیر ممنوعہ بور کا اسلحہ لیکر چلنے یا نمائش پر زیادہ سے زیادہ سزا سات سال کم از کم سزا تین سال کم از کم جرمانہ بیس لاکھ۔ ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنے پر زیادہ سے زیادہ سزا سات سال کم از کم سزا چار سال کم از کم جرمانہ بیس لاکھ۔ ممنوعہ بور کا اسلحہ لیکر چلنے یا نمائش پر زیادہ سے زیادہ سزا دس سال کم از کم سزا سات سال کم از کم جرمانہ بیس لاکھ۔ دو ممنوعہ یا پانچ غیر ممنوعہ بور کا اسلحہ رکھنے پر زیادہ سے زیادہ سزا پانچ 14  سال کم از کم سزا دس سال کم از کم جرمانہ تیس لاکھ 2. زنا بالجبر گینگ ریپ کیس میں پولیس کے بے گناہ کرنے کی بنا پر ملزم ضمانت قبل از گرفتاری کا حقدار نہ ہوگا  مطلب اگر زنا بالجبر کسی نے زبردستی کسی خاتون کے ساتھ زنا کی ہے اور اوپر سے وہ گینگ مطل...