نکاح کے خاتمے کے لیے دعوی ۔ مگر دعوی خارج کر دیا گیا
ظلم کی بنا پر خلع کا دعوی مگر دعوی خارج
مسز طہارت فردوس
بنام
امتیاز خان وغیرہ
رٹ پٹیشن نمبر 4841 سال 2016
مدعیہ نے مدعا علیہ پر پر کیس کیا جس میں اس نے یہ بیان کیا کہ اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا ہے اور تشدد کرتا ہے مگر وہ عدالت میں بیوی عدالت میں یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا ہے یا تشدد کرتا ہے جس کی بنا پر عدالت نے مشاہدہ کرتے ہوئے کیس کو خارج فرما دیا کیونکہ بیوی یہ ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ شوہر اس پر ظلم کرتا ہے
اور ہائی کورٹ نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ میاں بیوی کو زور زبردستی کی بنا پر اکٹھے نہیں رکھا جا سکتا اگر عورت اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے وہ عدالت میں خلع دائر کر کے شوہر سے علیحدگی کا کیس کر سکتی ہے اور وہ شوہر سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے
اور اگر میاں بیوی اللہ کی حدود جو اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ ہے کو برقرار نہ رکھ سکیں تو وہ علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں اس بنا پر کہ اگر وہ اللہ کی حدود کو برقرار نہ رکھ سکیں تو اس صورت میں اسلام انہیں علیحدگی کا اختیار دیتا ہے
اب صورتحال یہ ہوئی کہ بیوی کسی بھی صورت اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کو تیار نہ تھی حالات بہت کشیدہ تھے ایسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے خلع کا حکم دیا گیا اب عدالت شوہر کو اس کے مد مقابل میں فوائد دینے کے لیے تیار تھی جس سلسلے میں عدالت نے شوہر کو بیوی کے ساتھ مسلسل رہنے کو بھی ایک فائدہ کہا ہے اسی طرح اسی طرح مالی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے حکم دیا کہ جو حق مہر جزوی یا سارے کا سارا شوہر کو واپس کیا جائے بیوی انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی جس طرح شوہر نے بیوی کے ساتھ رہ کر فوائد حاصل کی اسی طرح بیوی نے شوہر کے ساتھ رہ کر بھی فوائدہ حاصل کی ہے اب بیوی کو حکم دیا گیا کہ وہ ایک لاکھ نقدی اور پانچ تولے سونا خلع کے عوض شوہر کو واپس کرے اور دوسری طرف اسے یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنے گھر داری کو اسی طرح برقرار رکھے یا شوہر کا ایک لاکھ نقدی اور پانچ تولہ سونا اسے واپس کرے
اب چونکہ بیوی نے فیملی عدالت میں خلع کا کیس دائر کیا تھا مگر فیملی عدالت میں وہ مرد کی شوہر کی ظلمت کو ثابت نہ کر سکی اور اس کی خلع نہ ہوئی پھر اس نے اپیل دائر کی تب بھی اس کی خلع کا حکم نہ ہوا پھر رٹ پٹیشن ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ہائی کورٹ نے نیچلی دونوں عدالتوں کے فیصلے کو کلعدم قرار دیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ اگر بیوی اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہو تو وہ خلع کا حق رکھتی ہے اور جو فیصلہ نے چلی عدالتوں نے ازدواجی زندگی و برقرار رکھنے کے لیے دیا تھا ہائی کورٹ نے اس کو کلعدم قرار دے دیا۔
اب جب کہ بیوی نے شوہر کے خلاف خلع کا دعوی دائر کیا اور ساتھ میں حق مہر کی ڈیمانڈ بھی کی جو کہ ایک لاکھ نقدی پانچ تولے سونا اور 10 مرلے کا ایک مکان تھا شوہر بیرون ملک مقیم تھا جبکہ بیوی پاکستان میں سرکاری ملازمہ تھی جب شروع شروع میں شادی ہوئی تو وہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے مگر اس کا رویہ شروع سے تھوڑا ظالمانہ تھا جب کہ مدعیہ ایک ٹانگ سے معذور تھی اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا تھا اور مارتا پیٹتا تھا اس کا رویہ تھوڑا سا ظالمانہ تھا کیونکہ وہ ایک ٹانگ سے معذور تھی تو اس نے گھر بعد رکھنے کی بہت کوشش کی کہ کسی طرح اس کا گھر اباد رہے اور وہ ایک سرکاری ملازمہ بھی تھی
بیوی نے یعنی عورت نے دعوے میں یہ لکھا تھا کہ اس کا شوہر اس پر ظالمانہ تشدد کرتا ہے اسے مارتا پیٹتا ہے اور گھر سے نکال دیتا ہے اور جب عدالت نے شور کو نوٹس بھیجے تو عدالت کے کہنے پر جب شوہر عدالت میں پیش ہوا تو اس نے تمام بات کی تردید کر دی نہ تو وہ ظالمانہ تشدد کرتا تھا اور نہ مارتا پیٹتا تھا اور حتی کہ حق مہر اس نے جو بیوی کو ادا کیا تھا وہ واپس لینے کا پابند تھا کیونکہ عورت خلا لے رہی تھی اور اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے صلح کے لیے کافی جرگے بٹھائے بیوی کو واپس لانے کی بہت کوشش کی اور جب شہادت میں گواہان اور بیوی یہ ظالمانہ تشدد ثابت نہ کر سکی جو کہ اس نے سراسر غلط اور بے بنیاد اور جھوٹ کی بنا پر شوہر پر الزام لگایا تھا تو عدالت نے حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ دوبارہ بات ہو جائے کیونکہ وہ ظالمانہ تشدد ثابت کرنے میں ناکام تھی اسی طرح عدالت نے بیوی یعنی درخواست گزار کا دعوی خارج کر دیا اور اسے ازدواجی زندگی برقرار رکھنے کی منظوری دے دی
درخواست گزار نے فیملی عدالت میں کیس دائر کیا جس میں اس نے الزام لگایا کہ ایا شوہر اس پر ظلم و زیادتی کرتا ہے لیکن وہ عدالت میں یہ ثابت کرنے سے ناکام رہا دعوی خارج کر دیا گیا
درخواست گزار نے اپیل دائر کی جس میں اس نے عدالت میں ظلم و جبر کی بنا پر خلع کی ڈیمانڈ کی لیکن اپیل میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں وہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا اپیل بھی خارج کر دی گئی پھر درخواست گزار نے ایک اور درخواست دائر کی جس میں اس نے ایک لاکھ نقدی پانچ تولے سونا اور ایک 10 مرلے مکان کی استدا کی۔
سب سے پہلے ایک بات بتانا چاہوں گا جس میں درخواست گزارنے زبانی طلاق کا ذکر کیا ہے جسے پیراگراف نمبر 7 میں ذکر کیا گیا ہے کہ مدعا علیہ نے زبانی طلاق دی تھی لیکن جہاں تک ہائی کورٹ کے جج نے مطالعہ کیا اور وہ مطالعہ شروع سے لے کر اخر تک ہر پیراگراف کا لفظ با لفظ مطالعہ کیا گیا مگر
درخواست گزار نے جو موقف زبانی طلاق کا لیا تھا وہ ریکارڈ پر نہ تھا اس لیے اس بات کی تصدیق نہ ہو سکی کہ زبانی طلاق دی گئی تھی درخواست گزار کا یہ موقف نہیں مانا جا سکتا
اور دوسرا درخواست گزار نے یہ موقف لیا تھا کہ اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا ہے جسے وہ عدالت میں ثابت کرنے سے قاصر ہے اور عدالت میں یہ بات وہ ثابت نہ کر سکی جس کی وجہ سے فیملی عدالت اور ایپلانٹ عدالت نے خلع دینے سے انکار کر دیا
اب جب ہائی کورٹ میں گئے تو ہائی کورٹ نے اس بات کا جائزہ لیا تو ہائی کورٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ نچلی دو عدالتوں کے فیصلے درست ہیں اب ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ میاں بیوی اگر دوبارہ میں ملاپ یا ازدواجی زندگی برقرار رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتے ہیں اور اگر وہ لیدگی اختیار کرنا چاہیں تو وہ بھی کر سکتے ہیں سلامے میں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ زبردستی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہا جا سکتا
اللہ تعالی کی عطا کردہ حدود کے اندر اگر میاں بیوی کا گزار نہ چل رہا ہو تو اس کا مناسب حل علیحدگی ہے مگر ابھی یہاں پہ ایک نئی بات جو سامنے اتی ہے وہ یہ ہے کہ درخواست گزار مدعا علیہ کی دوسری بیوی ہے جس کی بنا پر وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہتی ہے اور وہ بار بار یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کے شوہر نے اسے زبانی طلاق دے دی ہے مگر جو ریکارڈ سے ثابت نہ ہوتی ہے فیملی عدالت نے جب خلع نہ دیا اور ایپیلانٹ عدالت نے بھی مگر اس کے باوجود وہ ہائی کورٹ میں رٹ کرتی ہے کہ اسے اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہنا ہے بار بار اصرار کرنے کے باوجود اخر کار ہائی کورٹ اس فیصلے پر پہنچتی ہے کہ ان کی علیحدگی ہی بہتر ہے مگر شوہر ابھی بھی اس سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن بے سود
اب یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نکاح نامہ میں حق مہر ایک لاکھ روپے نقد اور پانچ تولے سونا جو کہ موجود ہے اور شرط کے مطابق اور عورت خلع لینے کے بعد حق مہر واپس کرنے کی پابند ہے اب دیکھنا یہ ہے
وہ ایک لاکھ روپے نقد اور پانچ تولے سونا واپس کرتی ہے یا نہیں
یہاں پہ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ایک 10 مرلے کا مکان بھی جو حق مہر میں موجود ہے وہ واپس کرنے کی مجاز ہے لیکن عورت یا ایک لاکھ روپے نقد اور پانچ تولے سونا واپس کرنے کے لیے تیار ہے مگر مکان وہ نہ دینے پر رضامند ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مکان اس نے خود خریدا ہے مگر شوہر اس بات سے انکاری ہے اخر کار شوہر نے بھی یہ تسلیم کیا کہ وہ اس کو طلاق دینے کے لیے تیار ہے مگر وہ ایک لاکھ روپے نقد اور پانچ تولے سونا اور مکان جو وہ ہرگز 10 مرلے کا مکان جو وہ ہرگز اس کو دینے پر امادہ نہ ہے
اگر اس کے پس منظر میں جائیں تو بات وہی اتی ہے کہ ایا حق مہر بیوی نے شوہر کو واپس کیا یا نہیں اب اس بات کی تکرار دو وکلاء میں شروع ہوتی ہے
پہلے وکیل صاحب خلع اس وقت تک نہیں ہو سکتے جب تک کہ بیوی اپنے شوہر کو حق مہر واپس نہ کر دے اصولا اصول بھی یہی بنتا ہے کہ اگر کوئی عورت عدالت سے خلع لینے جائے تو اس سے پہلے شوہر کو حق مہر واپس کرنا ہوتا ہے پھر اس کے بعد اگے کی کاروائی شروع ہوتی ہے تب جا کر عورت کو خلع ملتی ہے اور مرد کو حق مہر واپس دیا جاتا ہے
اب بعض عدالتوں میں عدالت حکم دیتی ہیں کہ پورے کا پورا حق مہر واپس کر دیا جائے بعض عدالتیں کہتی ہیں کے آدھا حق مہر واپس کیا جائے اب یہ عدالت کی ثواب دید پر فیصلہ ہوتا ہے
دوسرے وکیل صاحب کہ اگر ایک عورت غریب ہے اس کے پاس واپس دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو وکیل صاحب نے سوالیہ نظروں سے جج صاحب کی طرف دیکھا اور کہا تو کیا ایسی عورت اپنا حق کھو دے گی کہ وہ کیا اسے انصاف نہیں ملے گا کہ ایا وہ خلا کی حقدار نہ ہوگی صرف اس بنا پر کہ وہ حق مہر واپس کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ ایک غریب عورت ہے
تب دوسرے وکیل صاحب نے کہا یہ تو اصول کی بات ہے اگر کوئی عورت خلا لیتی ہے تو وہ حق مہر واپس کرے گی اور یہ اصول ایک لمبی مدت سے چلتا ا رہا ہے اور اصولاً بات بھی یہی ہے
اب بات عدالت کے فیصلے پر منحصر کرتی ہے کہ عدالت کس طرح باہمی فائدے کو ترجیح دیتی ہے بالکل اسی طرح عدالت باہمی فائدے کو دیکھتے ہوئے عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں عورت کو بہت سے فوائد حاصل ہوئے ہیں اسی طرح عورت کا مرد کے ساتھ رہنا بھی ایک فائدہ ہے اور جہاں تک مالی معاملات کی بات ہے تو اس کو اس طرح عدالت ایڈجسٹ کر سکتی ہے کہ دونوں کو فائدہ دیا جائے
اب چونکہ درخواست گزار ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے پاس کوئی چیز بھی نہ ہے تو اس صورت میں عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جزوی یا سارا حصہ مرد کو واپس کیا جائے مگر پھر عدالت عورت کی طرف دیکھتی ہے جو کہ غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو اس بنا پر عدالت اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ ایک لاکھ نقدی اور پانچ تولہ سونا مرد کو واپس کیا جائے جبکہ مکان جو دس مرحلے کا تھا یا وہ پلاٹ تھا وہ عورت کے پاس رہے گا
ZC/92/P درخواست کا فیصلہ کر دیا گیا
Eg: 2019 CLC 1562..

Comments
Post a Comment