PLD 2025 PESHAWAR 67
محمد نعیم انور اور شاہد خان ( جج صاحبان )
وقاص خان وغیرہ
بنام
ریاست
رٹ پٹیشن نمبر1308
فیصلہ مورخہ: 21 جون 2023
دفعہ 265 K ضابطہ فوجداری
265 k ایک بہت مضبوط اور طاقتور دفعہ ہے اس میں جج صاحبان بغیر پورا ٹرائل کے فوجداری مقدمات میں ملزم کو بری کر سکتے ہیں یہ دیکھتے ہوئے کہ اس کے خلاف اس قسم کا کیس نہ بنتا تھا
265 k
مواد کی عدم دستیابی ہو کسی پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہو فرینزک یا شوائد نہ ہو موقع کے گواہ نہ ہو یا عدالت کو لگے جھوٹا ایف ائی ار کروائی گئی ہے تو ایسی صورت میں 265 k کی درخواست بغیر ٹرائل کے ملزم کو بری کروا دیتی ہے
![]() |
ضابطہ فوجداری:
ٹوٹل 3 درخواست گزار ہیں 1 طالب علم ہے اور 2 بیرون ملک جانے کی خواہش مند ہے اب ان تینوں کو کریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت کی اس سلسلے میں انہوں نے ایک ائینی درخواست گزاری اور استدعا کی جس میں انہوں نے کریکٹر سرٹیفیکیٹ پر کوئی اضافی نوٹ نہ ہو جو ان کے خلاف ایف ائی ار درج ہوئی تھی اس حوالے سے اور نہ ہی کوئی ایسا نوٹ لکھا ہو کہ ان پر ایف ائی ار ہوئی تھی اور انہیں بریعت دے دی گئی تھی اس سلسلے پہ انہوں نے یہ درخواست گزاری
درخواست گزاروں کا اب موقف یہ تھا کہ عدالت نے چونکہ انہیں بری کر دیا ہے اور عدالت نے یہ بریت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے 265 کے تعزرات پاکستان کے تحت کی تھی چونکہ بریت ایک راضی نامے کی بنیاد پر ہوئی تھی
درخواست گزاروں کے درمیان صلح ہو چکی تھی اور انہیں عدالت نے بری کر دیا تھا لیکن پھر بھی کریکٹر سرٹیفیکیٹ پر لکھا اتا تھا اس وجہ سے انہوں نے ائینے ریٹ دائر کی کیونکہ جو نوٹ لکھا ا رہا تھا وہ بلا جواز اور غیر معقول تھا اب جو کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوا تھا کہ درخواست گزاروں کی لڑائی کے بعد صلح ہو چکی تھی اور انہیں بریت مل گئی تھی جو کہ 265 کے تعزرات پاکستان کے تحت ہوئی تھی اگر کسی فوجداری مقدمے میں بریت ہو جائے خواہ وہ میرٹ کی بنیاد پر ہو یا صلح نامہ کی بنیاد پر ہو وہ با عزت بریت ہی کہلاتی ہے اس لیے بریت بریت ہوتی ہے صلح نامہ کی بنیاد پر بریت کو ہرگز کمتر نہیں سمجھا جا سکتا
سمجھوتہ:
اس لیے اگر کوئی بریت میرٹ کی بنیاد پر ہو یا راضی نامے کی بنیاد پر ہو سب کا احترام کیا جانا چاہیے اور وہ بریت جو شک کا فائدہ دینے پر ملزم کو رہا کیا گیا ہو بری کیا گیا ہو وہ بھی قابل احترام بریت ہے کیونکہ استغاثہ پراسیکیوشن یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ ملزم کے خلاف شہادتیں پیش کی جائے قانون کی نظر میں ایسی کوئی بریت نہیں ہے جس میں شرم یا عار محسوس کی جائے کیونکہ تمام بریتیں بریت ہی کہلاتی ہیں اس میں کوئی شرم والی بات نہ ہیں قانون کی نظر میں سب برابر ہےاس مقدمے میں جو درخواست گزاروں پر ایف ائی ار کے ذریعے الزامات لگائے گئے تھے نہ تو وہ معاشرے پر برا اثر انداز ہوتے تھے اور نہ ہی وہ ریاست کے خلاف تھے اور نہ ہی وہ بدکاری سے متعلق تھے وہ تو صرف دو لوگوں کے درمیان ایک معمولی سا تنازعہ تھا جو دونوں کے درمیان تنازع خوش اسلوبی اور نیک نیتی کے ساتھ ختم ہوا دونوں کے درمیان نیک نیتی غالب ائی اور دونوں گروہوں نے اپس میں صلح کر لی اور دونوں ایک سمجھوتے پر پہنچ گئے
درخواست گزاروں کو بری کر دیا گیا ایف ائی ار میں ان پر الزامات عائد کیے گئے تھے مگر جب عدالت نے انہیں بری کر دیا تو انھیں تمام الزامات سے بری سمجھا جائے
لہذا انہیں معصوم معنی سمجھا اور تسلیم کیا جانا چاہیے تھا مگر کلیرنس سرٹیفیکیٹ میں مصالحت پر بریت کا ذکر ارہا تھا جو کہ ناقابل جواز ہے اور نہ ہی قانونی طور پر ایسا لکھا ہونا چاہیے تھا کلیرنس سرٹیفیکیٹ میں یہ دراصل نا انصافی کو ظاہر کرتا ہے اور بریعت کے حکم کے مترادف تھا اس لیے ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ پولیس افیسر کو حکم دیا کہ درخواست گزاروں کے کلیرنس سرٹیفیکیٹ جاری کیے جائے اور ان پر صلح کی بریت کا کوئی ذکر نہ کیا جائے اور نہ ہی متنازع نوٹ کا کوئی ذکر ذکر کریں اس بنیاد پر ائینی درخواست کو منظور کر لیا گیا
فیصلہ:
ڈاکٹر محمد اسلام بنام حکومت خیبر پختو نخوا وغیرہ
وکیل: شبیر احمد خان
سید سلطانت خان اسسٹنٹ اے جی رشید احمد ڈی ایس پی ہمراہ جواب دہندگان
20 جون 2023
شاہد خان جج
وقاس خان منظور احمد اور نوید احمد نے عدالت کے سامنے اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کہ ارٹیکل 199 کے تحت رٹ پٹیشن دائر کی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ
ایف ائی ار نمبر 332 مورخہ 20-09-2021 دفعہ 324,364,342,427,148,149,337,(A)1 پی پی سی پولیس اسٹیشن چکدڑہ، درخواست گزاروں سے متعلق ہے
درخواست گزاروں کے حقوق پر بات کی گئی اور مقامی پولیس کو ہدایت کی گئی کہ درخواست گزاروں کو کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے جس میں ایف ائی ار کا ذکر نہ ہو
اگر عدالت سمجھتی ہے کہ درخواست گزاروں کو کوئی اور راحت بھی فراہم کی جائے تو عدالت فراہم کر سکتی ہے
درخواست گزاروں کا موقف یہ تھا کہ وہ ضلع دیر زیریں کہ مستقل رہائشی ہیں جن پر ایک ایف ائی ار مقدمہ نمبر 332 فوجداری مقدمہ ہوا تھا جنہیں معزز عدالت نے سمجھوتے کی بنا پر بری کر دیا
درخواست 265 کے سی ار پی سی کے تحت مزید یہ کہا گیا کہ درخواست گزار نمبر ایک طالب علم ہے اسے کالج میں ایڈمیشن کے لیے کریکٹر سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے جبکہ دیگر دو کو بیرون ملک جانے کے لیے ڈسٹرکٹ پولیس (جواب دہندہ نمبر 3) کی طرف سے کریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے درخواست گزاروں نے جب ڈسٹرکٹ پولیس جواب دہندہ نمبر 3 سے رابطہ کیا تو پہلے وہ کریکٹر سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے ہچکچا رہا تھا مگر پھر اس نے ایک اضافی نوٹ کے ساتھ کریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کر دیے اور اضافی نوٹ پر لکھا تھا صلح کے بعد بریت ہوئی اور پہلے والی ایف ائی ار کا ذکر بھی کر دیا
اب درخواست گزاروں کی عدالت کے سامنے شکایت یہ تھی کہ کریکٹر سرٹیفیکیٹ پر اضافی نوٹ لگانے کی کیا ضرورت تھی اور یہ نوٹ غیر معقول اور غیر منصفانہ ہے اور یہ بھی شکایت تھی کہ اگر کسی ملزم کی ضمانت ہو جائے تو اضافی نوٹ پر مصالحت کے تحت صلح لکھنے کی کیا ضرورت ہے
درخواست گزار کے وکیل کے ساتھ ساتھ مدہ علیہان کہ معاون اے جی کو بڑے غور سے اور بڑی تفصیل سے سنا گیا اور ریکارڈ کو مکمل طور پر دیکھا گیا
ریکارڈ کی سطح پر واضح طور پر لکھا ہوا ہے گرجا درخواست گزاروں پر ایف ائی ار کا چارج لگا تھا بعد میں انہیں بریعت مل گئی تھی اور بریت سمجھوتے کی بنا پر ہوئی تھی چائے سمجھوتے کی بنا پر ہی بریت ہوئی ہو یا میرٹ پر ہوئی ہو تو دونوں قابل عزت بریت ہے مخصوص یہ لکھ دینا کہ سمجھوتے کی بنا پر بریت ہوئی تھی یہ ایک غیر معقول لگتا ہے اس لیے عدالت نے کہا بریت بریت ہوتی ہے سمجھوتے کی بنا پر بریت کو کسی دوسری بریت سے کم تر نہیں سمجھا جا سکتا ہر بریت کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے جب یہ سوال ہیڈ نوٹس میں ایا
اونریبل ایبیکس کورٹ نے ڈاکٹر محمد اسلام بنام حکومت خیبر پختون خواں وغیرہ کے کیس میں جو ایس سی ایم ار 199398 رپورٹ ہوا عدالت نے یہی بیان کیا کہ اگرچہ ملزم کو شک کی بنا پر بریت ہوئی ہو یا مصالحت کی بنا پر بری ہوئی بریت ہوئی ہو تمام بریت قابل احترام ہے کسی بریعت کو دوسری بریت پر قانون کی نظر میں کوئی فوقیت حاصل نہ ہے عدالت کی نظر میں تمام بریت یکساں ہوتی ہیں کوئی بریت کسی سے کم تر نہ ہے ایسی کوئی بریت نہ ائے جس کو قابل احترام نہ سمجھا جائے قانون کی نظر میں کسی بریت میں کوئی فرق نہ ہے
دوسری صورت میں درخواست گزار پر ایف ائی ار میں لگایا گیا الزامات کے نوعیت ہیڈ نوٹس پر نہ تھے
اخلاقی بددیانتی ریاست پر الزامات یا ایسے جرائم جو معاشرے پر برا اثر چھوڑ جاتے ہیں ایسا کچھ نہ تھا یہ صرف دو لوگوں کا اپس میں تنازعہ تھا جو ایک سمجھوتے کی بنا پر انجام کو پہنچا اسی طرح سچائی غالب بھائی اور دونوں گروہوں نے اپس میں صلح کا اچھا انتخاب کیا اور سمجھوتے کہ بنا پر بری کر دیا گیا
یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ اگرچہ درخواست گزاروں پر ایف ائی ار میں الزامات عائد کیے گئے تھے اور یہ ایک متنازعہ کی بنا پر الزامات لگائے گئے تھے جس کے مطابق ایف ائی ار کا اندراج ہوا بعد میں عدالت نے انہیں ایک سمجھوتے کی بنا پر خوش اسلوبی سے بری کر دیا تو پھر پولیس کلیرنس سرٹیفیکیٹ پر سمجھوتے کی بنا پر بریت کا ذکر کرنا نہ تو قانونیا نہ ہی قابل جواز ہے بلکہ یہ اس فیصلے کو شکست دینے کے برابر ہوگا
اب بھی انہیں قانون کے مطابق معصوم افراد سمجھا سلوک اور قرار دیا جانا چاہیے اور اب کلیرنس سرٹیفیکیٹ میں ایف ائی ار کا ذکر کرنا یا سمجھوتے کی بنا پر بریت کا ذکر کرنا غیر قانونی اور بلاجواز ہے اور یہ بریعت کے حکم کو شکست دینے کے مترادف ہوگا
تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ رٹ پٹیشن منظور کی جاتی ہے
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر/جواب دہندہ نمبر 3 کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ تینوں درخواست گزاروں کو "ایمانداری کے سرٹیفکیٹس برائے پولیس کلیئرنس" جاری کریں جن میں مذکورہ نوٹ کا ذکر نہ ہو جو کہ 27.09.2022 کو جاری کردہ سرٹیفکیٹس میں درج ہے۔ حکم اسی طرح جاری کیا جاتا ہے
MQ 129 P petition allowed
Comments
Post a Comment