THE LAWYERS WELFARE AND PROTECTION ACT, 2023 وکلاء کو تحفظات دینے کا قانون/ وکلا کی فلاح و بہبود کا قانون
THE LAWYERS WELFARE AND PROTECTION ACT, 2023
وکلا کی فلاح و بہبود کا قانون
وکلاء کو تحفظات دینے کا قانون
وکیلوں کی بہبود اور تحفظ کا ایکٹ، 2023
حالیہ ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، وکلاء کی بہبود اور تحفظ کو یہ قانونی فریم ورک فراہم کرتا ہے اور اس سے متعلق یا اس کے ضمنی معاملات کو حل کرتا ہے۔ اسے مندرجہ ذیل طریقے سے نافذ کیا جاتا ہے
باب 1
ابتدائی دفعات
دفعہ 1: مختصر عنوان، دائرہ کار اور نفاذ —
(1) اس ایکٹ کو "وکیلوں کی بہبود اور تحفظ کا ایکٹ، 2023" کہا جائے گا۔
(2) یہ پورے پاکستان میں نافذ ہوگا۔
(3) یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
دفعہ 2: تعریفات
(1) اس ایکٹ میں، جب تک کہ سیاق و سباق سے کوئی دوسرا مطلب نہ نکلتا ہو، مندرجہ ذیل الفاظ کے معنی ہوں گے
(الف) "تشدد کا عمل" سے مراد کوئی بھی ایسا عمل ہے جو کسی شخص کے ذریعے کسی وکیل کے خلاف اس ارادے سے کیا جائے کہ وکیل کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی کے سامنے غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور بے خوف طریقے سے مقدمات کی پیروی کرنے کے عمل کو متاثر یا روکے۔ اس میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
(i) ہراساں کرنا، دباؤ ڈالنا، حملہ کرنا، مجبور کرنا یا دھمکی دینا جو وکیل کی زندگی یا کام کرنے کی حالتوں کو متاثر کرے اور اسے اپنے فرائض انجام دینے سے روکے
(ii) وکیل کو نقصان پہنچانا، چوٹ پہنچانا، ہلکی یا شدید تکلیف دینا، یا اس کی جان کو خطرے میں ڈالنا، خواہ یہ عدالت کے احاطے میں ہو یا باہر
(iii) کسی شخص یا اتھارٹی کا وکیل پر کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالنا کہ وہ رازدارانہ معلومات یا مواد کو ظاہر کرے یا اسے چھوڑ دے، جسے وکیل قانون کے تحت محفوظ رکھنے کا پابند ہے
(iv) کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالنا کہ وکیل کسی موکل کی نمائندگی نہ کرے یا اپنا وکالت نامہ واپس لے لے یا کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی کے سامنے پیش ہونے، بحث کرنے یا کارروائی کرنے سے دستبردار ہو جائے۔
کسی بھی جائیداد، دستاویزات یا مواد کا نقصان یا تلف جو ایڈووکیٹ قانون کے تحت رکھنے کا پابند ہو؛ یا
(vi) عدالتی یا نیم عدالتی کارروائی کے دوران توہین آمیز زبان کا استعمال۔
(b) "ایڈووکیٹ" کا وہی مفہوم ہوگا جو "لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ، 1973 (XXXV of 1973)" میں دیا گیا ہے؛
(c) "بار کونسل" کا وہی مفہوم ہوگا جو "لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973 (XXXV of 1973)" میں دیا گیا ہے
(d) "کوڈ" سے مراد "فوجداری کارروائی کا ضابطہ، 1898 (ایکٹ نمبر V of 1898)" ہے
(e) "عدالت" سے مراد وہ عدالت ہے جو سیکشن 5 کے تحت نوٹیفائی کی گئی ہو یا کسی دوسرے قانون کے تحت قائم کی گئی ہو
(f) "حکومت" سے مراد وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت ہوگی، جیسا کہ موقع ہو؛ اور
(g) "جرم" سے مراد کوئی بھی فعل جو اس ایکٹ کے تحت یا نافذ الوقت کسی دوسرے قانون کے تحت قابل سزا ہو اور
(h) "مراعات یافتہ مراسلت" کا وہی مفہوم ہوگا جو "قانون شہادت، 1984 (پریذیڈنٹ آرڈر نمبر 10 of 1984)" میں دیا گیا ہے۔
(2) اس ایکٹ میں استعمال ہونے والے کوئی بھی الفاظ یا اصطلاحات جو خاص طور پر بیان نہ کی گئی ہوں، کا وہی مفہوم ہوگا جو "لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ، 1973 (XXXV of 1973)" اور "پاکستان پینل کوڈ، 1860 (ا یکٹ نمبر XLV of 1860)" میں دیا گیا ہے۔
باب دوم
**جرائم اور سزائیں**
3۔ جرائم اور سزائیں— (1) جو کوئی بھی ایڈووکیٹ کے خلاف تشدد کا کوئی عمل کرے گا یا اس کی ترغیب دے گا، سوائے اس تشدد کے جو سیکشن 2 کی ذیلی شق (1) کے clause (a) کی ذیلی شق (ii) میں شامل ہو، اسے سزا دی جائے گی۔
. سزا کے احکامات
- پہلی بار جرم کرنے والے کو تین سال تک کی قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
- اگر کوئی شخص اس قانون کے تحت پہلے ہی سزا پا چکا ہو اور دوبارہ جرم کرے، تو اسے کم از کم ایک سال سے لے کر پانچ سال تک قید یا دو لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ملیں گی۔
2. جرم کی نوعیت
- اس قانون کے تحت تمام جرائم غیر ضمانتی (Non-Bailable) ہیں، یعنی مجرم کو ضمانت پر رہا نہیں کیا جا سکتا۔
- عدالت کی اجازت سے جرم کو راضی نامہ (Compoundable) بنایا جا سکتا ہے۔
- یہ جرائم قابلِ گرفت (Cognizable) ہیں، یعنی پولیس بغیر وارنٹ کے گرفتار کر سکتی ہے۔
3. تحقیق کے قوانین
- جرم کی تحقیقات انسپکٹر یا اس سے اوپر کے رینک کا پولیس افسر کرے گا۔
- تحقیقات کیس رجسٹر ہونے کے 14 دنوں کے اندر مکمل کرنی ہوں گی۔
4. عدالت کا قیام اور اختیارات
- وفاقی حکومت، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے مشورے کے بعد، ملک بھر میں اضافی سیشن جج یا دیگر عدالتیں قائم کر سکتی ہے تاکہ اس قانون کے تحت مقدمات چلائے جا سکیں۔
- تمام جرائم صرف اسی قانون کے تحت بنائی گئی عدالتوں میں ہی چلائے جائیں گے۔
5. مقدمے کی سماعت
- عدالت کو کیس سننے کے بعد چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرنا ہوگا۔
- اگر سماعت ملتوی کی جاتی ہے تو عدالت کو وجہ بتانا ضروری ہوگی۔
6 ماہ کی مقررہ مدت میں مقدمہ ختم نہ ہونے کی صورت
اگر مقدمہ 6 ماہ کی طے شدہ مدت میں ختم نہ ہو، تو عدالت اس کی وجوہات تحریر کرے گی۔
8۔ مشترکہ مقدمات (جوائنٹ ٹرائلز)
(1) جب عدالت اس ایکٹ کے تحت کسی جرم کا مقدمہ چلائے، تو وہ اسی مقدمے میں کوئی دوسرا جرم بھی شامل کر سکتی ہے جو ملزم پر کوڈ کے تحت عائد ہو، بشرطیکہ وہ جرم اسی سے متعلق ہو۔
(2) اگر اس ایکٹ کے تحت چلائے جانے والے مقدمے کے دوران یہ معلوم ہو کہ ملزم نے کسی دوسرے قانون کے تحت بھی جرم کیا ہے، تو عدالت اسے اس دوسرے جرم کے تحت بھی سزا دے سکتی ہے۔
9۔ وکیل کی مرافعہ پر رازداری
کسی بھی موجودہ قانون کے باوجود:
(الف) کسی بھی شخص، سرکاری ملازم یا اتھارٹی کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ کسی وکیل کو گرفتار کرے، حراست میں لے، یا اس کے خلاف تفتیش کرے تاکہ اس کے پیشہ ورانہ فرائض سے متعلق کوئی دستاویز، مواد یا معلومات حاصل کی جا سکے۔
(ب) اگر کوئی (الف) کی خلاف ورزی کرے گا، تو اسے سیکشن 2 کے تحت تشدد کا عمل سمجھا جائے گا۔
باب III – وکلا کی بہبود
10۔ قانونی مشاورت
ہر ایسی انکارپوریٹڈ کمپنی جس کا پیڈ اپ کیپٹل 20 ملین سے زیادہ ہو، خودمختار ادارہ، کارپوریشن یا قانونی اتھارٹی کو کم از کم ایک پریکٹس کرنے والے وکیل کو ریٹینر شپ پر بطور قانونی مشیر رکھنا ہوگا۔ تاہم، کوئی بھی وکیل ایک وقت میں تین سے زیادہ ایسے اداروں کے لیے قانونی مشیر کے طور پر خدمات نہیں دے سکتا۔
11۔ صحت کی سہولیات کی فراہمی
حکومت یہ نوٹیفائی کرے گی کہ تمام سرکاری اور نیم سرکاری ہسپتالوں میں ہر وکیل، اس کا جیون ساتھی اور ان کے زیر کفالت بچوں کو گزٹیڈ سرکاری افسر کے برابر طبی علاج کا حق ہوگا، بشرطیکہ وہ اپنے سرکاری کارڈز پیش کریں اور متعلقہ بار کونسلز تصدیق کریں۔
سیکشن 12: مالی سہولیات
تمام مالی اداروں پر لازم ہے کہ وہ وکلا کو ہر قسم کے امتیاز کے بغیر مالی سہولیات فراہم کریں۔ اگر کوئی ادارہ اس کی خلاف ورزی کرے تو متاثرہ وکیل کی شکایت پر متعلقہ اتھارٹی مناسب کارروائی کرے گی۔
سیکشن 13: شہداء پیکیج
اگر کوئی وکیل اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران دہشت گردی یا کسی اور حملے کا شکار ہو جائے اور حملہ آور نامعلوم ہوں، تو اس کے خاندان کو سرکاری گزیٹڈ آفیسرز (BPS-18) کے برابر شہداء پیکیج دیا جائے گا۔
سیکشن 14: قواعد بنانے کی اختیار
وفاقی حکومت اس ایکٹ کے مقاصد کو عملی شکل دینے کے لیے قواعد و ضوابط بنا سکتی ہے۔
سیکشن 15: فوقیت
اس ایکٹ کے تحت دی گئی دفعات کو کسی بھی موجودہ قانون کے خلاف ہونے کے باوجود فوقیت حاصل ہوگی۔
سیکشن 16: کوڈ کا اطلاق
اس ایکٹ میں دی گئی دفعات کے ساتھ متصادم نہ ہونے کی صورت میں، کوڈ کے احکامات بھی لاگو ہوں گے۔
سیکشن 17: مشکلات کا ازالہ
اگر اس ایکٹ کے کسی حکم پر عمل درآمد کرنے میں کوئی مشکل پیش آئے، تو وفاقی حکومت سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن جاری کر کے ایسا حکم دے سکتی ہے جو ایکٹ کے مقاصد کے مطابق ہو اور مشکل کو دور کرے۔
Comments
Post a Comment