PLD 2025 LAHORE 152/ہائی کورٹ کا بچوں کے خرچے کے حوالے سے نیا فیصلہ اگیا/بچے کس عمر تک والد سے خرچہ لینے کے اقدار ہیں؟
PLD 2025 LAHORE 152
پی ایل ڈی 2025 لاہور 152
احمد ندیم ارشد، جے کے سامنے
محمد عمران — درخواست گزار بمقابلہ
ثمینہ قیصر اور دیگر — جواب دہندگان
رٹ پٹیشن نمبر 62571 of 2024، فیصلہ شدہ 11 اکتوبر 2024 کو۔
(الف) فیملی کورٹس ایکٹ (XXXV of 1964)
سیکشن 2(d) سیول پروسیجر کوڈ (V of 1908)، آرڈر I، رول 10-آئین پاکستان، آرٹیکل 199-ضروری اور مناسب فریقین کا تعین-کورٹ فریقین کو خارج یا شامل کر سکتی ہے-باپ اور اس کے بالغ بیٹوں کے درمیان گزراوقت کے تنازعے میں، باپ نے اپنے بیٹوں کے ناموں کو مقدمے سے خارج کرنے کی درخواست کی، کیونکہ وہ بالغ ہو چکے تھے اور اب گزراوقت کے حق دار نہیں تھے---ٹرائل کورٹ نے درخواست قبول کر لی، لیکن اپیلٹ کورٹ نے فیصلہ تبدیل کر دیا درستگی کورٹ کسی بھی مرحلے پر، کسی فریق کی درخواست پر یا بغیر درخواست کے، جوائن کیے گئے کسی بھی نامناسب فریق (خواہ مدعی یا مدعا علیہ) کو خارج کر سکتی ہے جو فریق مقدمے سے کوئی تعلق نہ رکھتا ہو، اسے ریکارڈ سے خارج کیا جا سکتا ہے ہائی کورٹ نے فیملی کورٹس ایکٹ کی شق 2(d) کے تحت بالغ بیٹوں کو مناسب اور ضروری فریق قرار دیا، کیونکہ ان کی موجودگی تنازعے کے صحیح فیصلے کے لیے ضروری تھی ہائی کورٹ نے اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کو درست اور ریکارڈ کی مکمل جانچ پر مبنی قرار دیا، جس میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں تھی آئینی درخواست خارج کر دی گئی۔
(ب) اسلامی قانون
گزراوقت کی تعریف اور دائرہ کار باپ کا اپنے بالغ بیٹے کو گزراوقت دینے کی ذمہ داری گزراوقت کا حق صرف کھانے، کپڑے اور رہائش تک محدود نہیں، بلکہ ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے دیگر ضروری اخراجات بھی شامل ہیں۔
(ج) اسلامی قانون
بچوں کی گزراوقت باپ کی ذمہ داریباپ کا اپنے بالغ بیٹے کو مالی مدد فراہم کرنے کی ذمہ داری عام طور پر نہیں ہوتی، لیکن اگر بیٹا ابھی تک بنیادی تعلیم حاصل کر رہا ہو جو اسے روزگار کمانے کے قابل بنائے، تو عدالت اسے ایک استثناء کے طور پر مدنظر رکھ سکتی ہے۔ یہ تعلیم صرف بنیادی ضروریات تک محدود ہے، جبکہ اعلیٰ تعلیم یا بیرون ملک تعلیم اس میں شامل نہیں ہے۔
کیس کی تفصیل
پیٹیشنر (والد) نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ اس کے دو بالغ بیٹوں (ریسپونڈنٹ نمبر 2 اور 3) کے ناموں کو مقدمے کے دستاویزات سے ہٹا دیا جائے، کیونکہ وہ اب بالغ ہو چکے ہیں اور قانوناً وہ ان کی کفالت کے پابند نہیں۔ ٹرائل کورٹ نے اس درخواست کو مان لیا، لیکن اپیلٹ کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اب یہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
عدالت کا موقف
عدالت نے واضح کیا کہ اگر بالغ بیٹا ابھی تک بنیادی تعلیم حاصل کر رہا ہو جو اسے خود کفیل بننے میں مدد دے، تو باپ کی ذمہ داری کو استثناء کے طور پر تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اس کی مثال PLD 2013 کے ایک فیصلے (Humayun Hassan v. Arslan Humayun) سے بھی دی گئی ہے۔
درخواست گزار نے گزارش کی ہے کہ مدعا علیہان نمبر 2 اور 3 کے ناموں کو مدعیان کی فہرست سے حذف کر دیا جائے کیونکہ وہ نہ تو مناسب فریق ہیں اور نہ ہی ضروری فریق۔ درخواست گزار کے وکیل نے اپنے موقف کو دہراتے ہوئے "مسٹ. عائلہ نواز بمقابلہ جج فیملی کورٹ، خانیوال اور 2 دیگر" (2018 CLC 241) اور "محمد ریاض احمد بمقابلہ مسٹ. شاہین کہار اور 3 دیگر" (PLD 2023 لاہور 317) کے مقدمات کا حوالہ دیا۔
5. مدعا علیہان نمبر 2 اور 3 کی عمریں کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ مدعیان نے اپنے دعوے میں ان کی عمریں بالترتیب 20 سال اور 18 سال بیان کی ہیں۔ دعوے کے متن سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مدعیان نے نہ صرف گزرانے کے الاؤنس کا مطالبہ کیا ہے بلکہ تعلیمی، سفر اور خوراک کے اخراجات بھی مانگے ہیں۔
6. اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان رشتہ داروں کے گزرانے کے معاملات اسلام کے اصولوں اور ہدایات کے مطابق طے ہوں گے، یعنی فریقین کے ذاتی قانون کے تحت۔
7. "گزرانہ" کی تعریف بلیک لاء ڈکشنری (11ویں ایڈیشن) میں یوں کی گئی ہے:
5. ایک شخص کا دوسرے شخص کو مالی تعاون فراہم کرنا۔
آکسفورڈ ڈکشنری میں اس کی تعریف یوں ہے:
کسی شخص کے زندہ رہنے کے لیے ضروری رقم؛ اس رقم کی فراہمی کا عمل۔
ڈی ایف ملا کی کتاب "اصول محمدن لا" کے پیرا 369 میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے:
**"369. گزرانے کی تعریف ______ اس باب میں گزرانے میں خوراک، لباس اور رہائش شامل ہیں۔"**
8. محمدن لا کے پیرا 370 کے مطابق، ایک باپ اپنے بیٹوں کو بلوغت تک اور بیٹیوں کو شادی تک گزرانہ دینے کا پابند ہے، البتہ وہ اس بچے کو گزرانہ دینے کا پابند نہیں جو اپنی جائیداد سے اپنا گزرانہ کر سکتا ہو۔ پیرا 370 درج ذیل ہے:
370.—(1) ایک باپ اپنے بیٹوں کو بلوغت تک اور بیٹیوں کو شادی تک گزرانہ دینے کا پابند ہے۔ لیکن وہ بالغ بیٹوں کو گزرانہ دینے کا پابند نہیں، سوائے اس صورت کے جب وہ بیماری یا معذوری کا شکار ہوں۔ اگرچہ بچے اپنی ماں کی تحویل میں ہوں، لیکن باپ پر ان کے گزرانے کی ذمہ داری برقرار رہتی ہے۔ تاہم، باپ اس بچے کو گزرانہ دینے کا پابند نہیں جو اپنی جائیداد سے اپنا گزرانہ کر سکتا ہو۔
1. اگر باپ غریب ہو اور خود محنت کر کے کمانے کے قابل نہ ہو، تو ماں، اگر وہ خوشحال ہو، اپنے بچوں کی کفالت کرنے کی پابند ہے جیسے باپ ہوتا۔
2. اگر باپ غریب اور کمزور ہو، اور ماں بھی غریب ہو، تو بچوں کی کفالت کی ذمہ داری دادا پر ہوگی، بشرطیکہ وہ خوشحال ہو۔
3. اسلامی قانون کے مطابق، کفالت میں خوراک، کپڑے اور رہائش شامل ہیں۔ عام طور پر، بالغ بچے اپنی کفالت خود کر سکتے ہیں، لیکن اگر وہ معذور یا بیمار ہوں، تو انہیں کفالت کا حق ہوگا۔
4. پاکستان کی سپریم کورٹ کے مطابق، کفالت کا معیار خاندان کے حالات اور معاشرتی مرتبے کے مطابق ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر، ایک تاجر کا بیٹا محنت مزدوری کر کے یا چوری کر کے گزارہ نہیں کر سکتا، بلکہ اسے ایسی تعلیم دی جانی چاہیے جو اسے عزت کی روزی کمانے کے قابل بنائے۔
5. کفالت کا مقصد یہ ہے کہ بچہ اپنی خاندانی حیثیت کے مطابق ایمانداری اور محنت سے روزی کما سکے۔
رسپانڈنٹ نمبر 2 (16.10.2002 کو پیدا ہوئی) کی عمر 22 سال ہے، اور رسپانڈنٹ نمبر 3 (04.09.2004 کو پیدا ہوا) کی عمر 20 سال ہے۔ دونوں بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اور Majority Act, 1875 کی دفعہ 3 اور Guardians and Wards Act, 1890 کی دفعہ 4 کے تحت بالغ تصور ہوتے ہیں۔ وہ کسی بیماری یا معذوری کا شکار نہیں ہیں، اس لیے عام حالات میں ان کے والد (درخواست گزار) پر ان کی کفالت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ تاہم، بعض معروف فقہا نے اس معاملے میں رعایت کا دائرہ وسیع کیا ہے۔
نیل بی ای بیلیا نے اپنی کتاب "Muhammadan Law" میں لکھا ہے:
علم کے طلبہ اگر خود کما نہ سکیں تو انہیں اپنے والدین سے کفالت کا حق حاصل ہوتا ہے، خاص طور پر جب وہ قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔
اسی طرح،
اگر کوئی شخص غیر حاضر ہو لیکن اس کی کوئی جائیداد دستیاب ہو، تو جج اس جائیداد سے درج ذیل افراد کو کفالت کے لیے رقم دینے کا حکم دے سکتا ہے: والدین اور نابالغ لڑکے، یا بالغ لڑکے جو خود روزی کمانے سے قاصر ہوں۔
سید امیر علی نے اپنی کتاب "Mahommedan Law" میں لکھا ہے:
لڑکوں کی کفالت کی ذمہ داری بلوغت تک ہوتی ہے۔ اس کے بعد والد پر لڑکوں کی کفالت کی ذمہ داری نہیں ہوتی، سوائے اس صورت کے جب وہ کسی بیماری یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے کام کرنے سے قاصر ہوں، یا تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔ اگر لڑکے کام کرنے کے قابل ہوں لیکن ان کے لیے مناسب روزگار نہ ہو، تو انہیں معذور بچوں کے برابر سمجھا جائے گا۔
ڈاکٹر نشی پُروہت کی کتاب "اصولِ محمدن لا" میں بیان کیا گیا ہے کہ:
> "باپ کی ذمہ داری کہ وہ اپنے بیٹوں کی کفالت کرے، اس وقت ختم ہو جاتی ہے جب بیٹے بالغ ہو جائیں۔ لیکن اگر کوئی بالغ بیٹا کسی بیماری، جسمانی یا ذہنی کمزوری کی وجہ سے کام کرنے کے قابل نہ ہو، یا وہ تعلیم حاصل کر رہا ہو، تو باپ پر اس کی کفالت کرنا لازم رہتا ہے۔"
اس کا مطلب یہ ہے کہ کفالت کا حق صرف کھانے، کپڑے اور رہائش تک محدود نہیں، بلکہ اس میں ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے دیگر ضروری اخراجات بھی شامل ہیں۔
**پاکستان سپریم کورٹ کا فیصلہ (PLD 2013 سپریم کورٹ 557):**
عدالت نے کہا کہ آج کے دور میں، بچے کی تعلیم، سماجی ترقی، اور خاندان کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے، باپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے نابالغ بچے کی تمام ضروریات پوری کرے۔ البتہ، یہ ذمہ داری باپ کی مالی استطاعت کے دائرے میں ہونی چاہیے۔
عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر کوئی بالغ بیٹا اپنی بنیادی تعلیم مکمل نہیں کر پایا اور روزگار کمانے کے قابل نہیں ہے، تو وہ عدالت سے کفالت کا مطالبہ کر سکتا ہے، لیکن اس کے لیے باقاعدہ درخواست دائر کرنی ہوگی
عدالت کو ہر کیس کے حقائق کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کیا بالغ بیٹا، جو ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہے، والد سے مالی امداد کا حق دار ہے۔ اس فیصلے میں درج ذیل باتوں کو مدنظر رکھا جائے گا:
- بیٹے کی عمر، ذرائع، تعلیمی نوعیت اور سطح۔
- اس کے تعلیمی نتائج، لگن، اور روزگار کمانے کے لیے ضروری تعلیم کی حد (اعلیٰ تعلیم یا بیرون ملک تعلیم شامل نہیں)۔
- بیٹے کا والد کے ساتھ رویہ (احترام اور اطاعت)۔
- والد کی مالی استطاعت۔
12. اگر بالغ بیٹا ابھی بنیادی تعلیم مکمل نہیں کر پایا جو اسے روزگار کے قابل بنائے، تو عدالت مناسب صورت میں والد کو اس کی تعلیمی امداد دینے کا پابند کر سکتی ہے۔
13. تعلیم روزگار کے لیے ضروری ہے، لیکن اس میں اعلیٰ تعلیم یا بیرون ملک تعلیم شامل نہیں۔ عدالت کو فریقین کے ثبوتوں کی روشنی میں درج ذیل نکات پر غور کرنا چاہیے:
- والد کی مالی حیثیت۔
- بالغ بیٹے کی عمر اور رویہ۔
- بیٹے کے اپنے ذرائع۔
- تعلیم کی نوعیت اور سطح۔
- بیٹے کی تعلیمی کارکردگی اور لگن۔
- روزگار کے لیے ضروری تعلیم کی حد
1. بالغ بیٹے کی کفالت
- باپ کی مالی حیثیت اور بیٹے کی ضروریات دیکھی جائیں گی۔
- بیٹا اگر کام کرنے کے قابل ہے تو کفالت کا حق نہیں ہوگا، سوائے اس کے کہ وہ معذور ہو یا روزگار نہ مل سکے۔
- اعلیٰ تعلیم یا بیرون ملک تعلیم کی کفالت صرف اسی صورت میں ہوگی اگر باپ نے اس کا وعدہ کیا ہو۔
- بیٹے کو باپ کا احترام کرنا ہوگا اور نافرمان یا دور رہنے والا نہیں ہونا چاہیے۔
2. فیملی کورٹ کے اختیارات
- کورٹ کسی فریق کو مقدمے سے خارج کر سکتی ہے اگر وہ غیر ضروری ہو یا عدالت کے دائرہ کار میں نہ ہو۔
- "فریق" کی تعریف میں وہ شخص شامل ہے جس کی موجودگی فیصلے کے لیے ضروری ہو یا جسے کورٹ شامل کرے۔
3. فیملی کورٹ کا مقصد
- فیملی کورٹ کا قیام شادی اور خاندانی معاملات کے جلد حل کے لیے کیا گیا ہے۔
16. اوپر کی بحث کے مطابق، یہ دیکھا گیا ہے کہ جواب دہندگان نمبر 2 اور 3 اس مقدمے کے مناسب اور ضروری فریق ہیں، اور تنازعے کے صحیح فیصلے کے لیے ان کی موجودگی ضروری ہے۔
17. ان وجوہات کی بنا پر، اپیلٹ کورٹ نے جواب دہندگان کی اپیل کو درست طور پر منظور کیا ہے۔ درخواست گزار کے وکیل مقدمے کے حکم میں کوئی غیر قانونی بات، بے ضابطگی یا دائرہ اختیار کی خلاف ورزی نہیں دکھا سکے۔ زیرِ تنقید حکم اچھی طرح سے دلیل پر مبنی ہے اور ریکارڈ اور مقدمے کے merits کو مدِنظر رکھتے ہوئے دیا گیا ہے، لہٰذا آئینی دائرہ کار میں اس میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں۔ درخواست گزار کے وکیل کی طرف سے پیش کیے گئے قانونی حوالے اس مقدمے کے حقائق سے متعلق نہیں، اس لیے درخواست گزار کے لیے مفید ثابت نہیں ہوتے۔
18. مختصر یہ کہ یہ درخواست بے بنیاد ہے، لہٰذا اسے فوری طور پر خارج کر دیا جاتا ہے۔
**درخواست خارج۔**
Comments
Post a Comment