والد بچوں کی کسٹڈی کا زیادہ حقدار ہے؟ والدین میں سے بچوں کی کسٹڈی کسے ملے گی؟ پاکستان میں بچے والد یا والدہ کس کے حوالے کیے جاتے ہیں ؟
![]() |
#custody #custody of minor |
والدین میں سے بچوں کی کسٹڈی کسے ملے گی؟
پاکستان میں بچے والد یا والدہ کس کے حوالے کیے جاتے ہیں ؟
پاکستان کے بچوں کی حوالگی (کسٹڈی) کے قوانین میں خامیاں
تحریر: سمرین صبا
(ایڈووکیٹ، ہائی کورٹ)
پاکستان میں بچوں کی حوالگی کا نظام کئی مسائل کا شکار ہے، جیسے کہ:
صنفی تعصب (یعنی مرد یا عورت کے ساتھ جانبداری)،
بچوں کی رائے کو اہمیت نہ دینا،
اور بچوں کو مرکزِ توجہ بنانے والے نظام کی کمی۔
اسلامی قانون عموماً حوالگی کے معاملات میں ماؤں کو ترجیح دیتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات جانبدار فیصلے سامنے آتے ہیں۔
"گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ" (Guardians and Wards Act) بچوں کی فلاح و بہبود کو اہمیت دیتا ہے، لیکن اس کا عملی نفاذ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اکثر یہ والدین کے حقوق یا روایتی صنفی کرداروں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
عدالتیں معاشرتی تبدیلیوں کے مطابق چلنے میں سست ہیں، جیسے کہ دونوں والدین کی بچوں کی پرورش میں اہمیت کو سمجھنا۔
عمل درآمد (enforcement) کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، خاص طور پر وہ والدین جنہیں بچے کی کسٹڈی نہیں ملی، انہیں ملاقات کے حقوق حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
دوسری طرف، وہ والدین جنہیں بچوں کی کسٹڈی ملی ہوتی ہے، انہیں اپنے حقوق کو محفوظ بنانے میں مشکل پیش آتی ہے کیونکہ پاکستان کے عدالتی نظام میں وسائل اور صلاحیت کی کمی ہے۔
قانونی اور جسمانی تحویل (Custody) بچوں کی تحویل کے معاملات میں
جسمانی تحویل کا مطلب ہے کہ بچہ کس والدین کے ساتھ رہے گا۔ عدالت یہ فیصلہ کرتے وقت بچے کی ماضی کی زندگی، والدین کی مالی حیثیت، وسائل اور بچے کی خواہش کو مدنظر رکھتی ہے۔
قانونی تحویل اس فیصلے کو کہتے ہیں جس میں والدین بچے کی تعلیم، صحت اور مذہبی تربیت سے متعلق اہم فیصلے کرتے ہیں۔ عدالتیں عموماً والدین اور بچے کے تعلق کو ختم نہیں کرتیں، اور تحویل کے فیصلے میں بعد میں بھی تبدیلی ہو سکتی ہے۔
بچوں کی تحویل کی تاریخ
بچوں کی تحویل کے قوانین وقت کے ساتھ ساتھ بدلے ہیں۔ پہلے والد کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی، لیکن اب بچوں کی بہتری کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
قدیم دور: پرانے زمانے میں تحویل کی ذمہ داری باپ کی ہوتی تھی، اور یہ بچوں کی فلاح کے بجائے جائیداد کے حقوق سے جڑی ہوتی تھی۔
مذہبی اور ابتدائی جدید دور: چرچ (کلیسا) کا اثر تحویل کے فیصلوں پر ہوتا تھا، اور فیصلے زیادہ تر باپ کے حق میں ہوتے تھے، خاص طور پر وراثت اور خاندان کے نام کی وجہ سے۔
انیسویں صدی: انگلینڈ میں 1839 کا ایک قانون آیا، جس سے ماؤں کو بھی تحویل کے لیے عدالت جانے کا حق ملا۔ امریکا میں بھی بچے کی بہتری کو مقدم رکھنے کا اصول سامنے آیا۔
بیسیویں صدی کے شروع میں: "نرم عمر" (tender years) کا اصول آیا، جس کے مطابق چھوٹے بچوں کو ماؤں کے ساتھ رکھنا بہتر سمجھا گیا، کیونکہ اس وقت ماں کی اہمیت کو زیادہ مانا جانے لگا۔
بیسیویں صدی کے آخر میں: مشترکہ تحویل (joint custody) کا رجحان بڑھا، جس میں دونوں والدین کو بچے کی زندگی میں شامل رکھا گیا۔ اس کا مقصد بچے کی ذہنی اور جذباتی صحت کو بہتر بنانا تھا۔
اکیسویں صدی: آج کل کے قوانین والدین کے درمیان برابری کے اصول پر مبنی ہیں، اور بچے کے دونوں والدین کے ساتھ تعلق کو اہمیت دی جاتی ہے۔ عدالتی جھگڑوں سے بچنے کے لیے ثالثی (mediation) جیسے طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ مجموعی طور پر بچوں کی تحویل میں ایک متوازن اور بچے پر مرکوز طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔
اسلامی اور مغربی قوانین میں بچوں کی تحویل (کاسٹڈی) کا موازنہ
اسلامی تصور کے مطابق بچوں کی تحویل
پاکستان میں بچوں کی تحویل کے فیصلوں پر اسلامی قوانین کا گہرا اثر ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق، بچے کی بہترین فلاح کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ عام طور پر ماں کو بچے کی پرائمری کاسٹڈی دی جاتی ہے، کیونکہ اسے بچے کی بنیادی دیکھ بھال کرنے والی سمجھا جاتا ہے۔ باپ کو قانونی سرپرستی (guardianship) حاصل ہوتی ہے، جس میں تعلیم، شادی اور مالی معاملات میں فیصلہ کرنے کا اختیار شامل ہوتا ہے۔ جب بچہ ایک خاص عمر کو پہنچ جاتا ہے، تو کاسٹڈی ماں سے باپ کو منتقل ہو سکتی ہے، جو گھر کے سربراہ اور بنیادی کفیل کے طور پر باپ کے کردار کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلامی قانون بچے کی بہتری پر زور دیتا ہے، اور جج کو کاسٹڈی کے فیصلے میں بچے کے مفادات کو ترجیح دینا ہوتا ہے۔
مغربی ممالک میں بچوں کی تحویل کے قوانین
مغربی ممالک میں بچوں کی تحویل کے قوانین بچے کی بہترین فلاح کو مرکزی اہمیت دیتے ہیں، جس میں بچے کی جسمانی، جذباتی اور نفسیانی صحت شامل ہوتی ہے۔ یہ نقطہ نظر بچے کو مرکز میں رکھتا ہے اور اس کی رائے کو اہمیت دیتا ہے۔ مشترکہ کاسٹڈی (joint custody) مغربی ممالک میں عام ہو رہی ہے، جہاں دونوں والدین بچے کی پرورش میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ یہ صنفی مساوات اور دونوں والدین کی اہمیت کو تسلیم کرنے کی طرف ایک رجحان ہے۔ مغربی عدالتی نظام میں کاسٹڈی کے احکامات کو نافذ کرنے کے لیے مضبوط طریقہ کار موجود ہیں، جیسے کہ ملاقات (visitation) اور والدین کے حقوق کے واضح اصول۔ خاندانی عدالتیں تنازعات کو سنبھالنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہیں، اور کاسٹڈی کے معاہدے کو قانونی اور پولیس کے ذریعے آسانی سے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کی ترجیحات کو سننے اور ان پر عمل کرنے پر بھی زور دیا جاتا ہے، خاص طور پر جب وہ بڑے ہوتے ہیں۔ عدالتیں بچے کی نمائندگی کے لیے گارڈینز ایڈ لیٹم (guardians ad litem) یا دیگر نمائندے مقرر کر سکتی ہیں۔
پاکستان کے کاسٹڈی قوانین میں خلا کو پُر کرنا
پاکستان میں کاسٹڈی کے قوانین اکثر متنازعہ رہے ہیں، جہاں کاسٹڈی کے معاملات کو سنبھالنے میں خلا کی وجہ سے بعض گروہوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں، کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان میں کاسٹڈی کے موجودہ قوانین کا زیادہ تر انحصار اسلامی قانون (شریعت)، گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ 1890، اور خاندانی قوانین جیسے مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 پر ہے۔ اسلامی قانون کے تحت، کاسٹڈی عام طور پر ماں کے حق میں ہوتی ہے، خاص طور پر چھوٹے بچوں کے لیے، بشرطیکہ وہ ان کی دیکھ بھال کرنے کے قابل سمجھی جائے۔ تاہم، اسلامی اصولوں کی تشریح مختلف عدالتوں میں الگ الگ ہو سکتی ہے، جس کی وجہ سے جج کے ذاتی یا مذہبی خیالات کے مطابق فیصلے مختلف ہو سکتے ہیں۔
گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ کاسٹڈی کے تنازعات کے لیے ایک سیکولر فریم ورک پیش کرتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بچے کی بہتری کو کاسٹڈی دینے میں اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ تاہم، یہ قانون اکثر مبہم ہوتا ہے اور اس کا اطلاق مختلف ہو سکتا ہے۔ اس میں واضح رہنما اصول موجود نہیں ہیں۔
Who is eligible for the custody of minor?
(نابالغ بچے کی تحویل کا حقدار کون ہوتا ہے؟)
نابالغ بچے کی تحویل کا حقدار وہ شخص ہوتا ہے جو بچے کی بہتر پرورش، تعلیم، صحت اور فلاح و بہبود کو یقینی بنا سکے۔ عام طور پر عدالت درج ذیل باتوں کو مدِنظر رکھ کر فیصلہ کرتی ہے:
1. بچے کی بہتری (Welfare of the child)
عدالت سب سے پہلے یہ دیکھتی ہے کہ بچے کے لیے کون سا والدین یا سرپرست بہتر ہے۔
2. ماں یا باپ کی اہلیت
اگر بچہ کم عمر ہو، خاص طور پر دودھ پیتا بچہ ہو، تو اکثر ماں کو ترجیح دی جاتی ہے، جب تک کہ وہ نااہل ثابت نہ ہو۔ بڑے بچوں کے لیے دونوں والدین میں سے بہتر کو چُنا جاتا ہے۔
3. والدین کی مالی حیثیت اور کردار
عدالت اس بات کا بھی جائزہ لیتی ہے کہ والدین میں سے کون بچے کو اچھی زندگی دے سکتا ہے اور ان کا کردار کیسا ہے۔
4. بچے کی مرضی (اگر عمر مناسب ہو)
اگر بچہ اتنا سمجھدار ہو کہ اپنی پسند کا اظہار کر سکے، تو عدالت اس کی رائے کو بھی اہمیت دیتی ہے۔
5. ماحول اور تحفظ
جس والدین کے پاس بچہ زیادہ محفوظ، پرسکون اور محبت بھرا ماحول پا سکتا ہو، اسی کو ترجیح دی جاتی ہے۔
لہٰذا، نابالغ بچے کی تحویل کے لیے کوئی ایک مخصوص اصول نہیں بلکہ بچے کی فلاح اور بہتری کو بنیادی معیار بنایا جاتا ہے۔
Comments
Post a Comment