AI (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) / اے ای کس طرح قانونی معملات میں مدد فراہم کرتی ہے؟ پاکستان میں AI کی پہچان AI کے نقصانات
AI (آرٹیفیشل انٹیلیجنس)
اے ای کس طرح قانونی معملات میں مدد فراہم کرتی ہے؟
**AI کا قانونی چیلنج: غیر مجاز رسائی سے نمٹنے میں ترقی اور حفاظت کے درمیان توازن**
عمر شاہد،
بار ایٹ لاء* -
یہ مضمون AI اور قانون کے درمیان چیلنجوں پر بات کرتا ہے، خاص طور پر غیر مجاز رسائی (ہیکنگ یا ڈیٹا چوری) جیسے مسائل کو حل کرتے ہوئے ترقی اور حفاظت کے درمیان توازن کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ مصنف عمر شاہد، جو ایک قانون دان ہیں، اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ AI کی تیزی سے ترقی موجودہ قوانین کے لیے نئے سوالات کھڑے کرتی ہے
![]() |
AI (Artificial Intelligence) |
ایک ایسی ٹیکنالوجی جو مسلسل ترقی کر رہی ہے، کاروباروں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ مارکیٹ میں نئی ایجادات کے مطابق خود کو ڈھالیں۔ ایسی "ڈسٹربٹیو" یعنی بگاڑ پیدا کرنے والی ٹیکنالوجی نے ہمیشہ روایتی قانونی نظام کے لیے ایک چیلنج پیدا کیا ہے، کیونکہ نئی ٹیکنالوجیز اکثر ان نظاموں سے مطابقت نہیں رکھتیں اور بعض اوقات بالکل اجنبی محسوس ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے پرانے سسٹم بے کار ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی گول سوراخ میں چکور بلاک فٹ کرنے کی کوشش کی جائے۔
کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی نئی ٹیکنالوجی، جتنی AI (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) ہے، اتنی ڈسٹربٹیو نہیں رہی – چاہے وہ کاروباری ترقی کے لحاظ سے ہو یا انسانی شمولیت کے حوالے سے۔ قانونی اور کاروباری لحاظ سے، AI کے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے ڈیٹا کی حفاظت کو یقینی بنانا۔ صرف غلط استعمال ہی نہیں، بلکہ غیر مجاز رسائی سے بھی خطرہ ہوتا ہے۔ کاروباری لحاظ سے دیکھا جائے تو AI کے ذریعے کسی بھی قسم کی رسائی خفیہ معلومات کے لیک ہونے کا سبب بن سکتی ہے، اور یہ کاروبار کے ڈیٹا کی مالی اہمیت کو بھی کم کر سکتی ہے، خاص طور پر جب یہ ڈیٹا کسی بزنس ماڈل کا مرکزی حصہ ہو۔
---
اگرچہ قانونی استعمال کے لیے AI کو واضح طور پر بیان کرنا ایک الگ موضوع ہے، فی الحال انگلش قانون اسے یوں بیان کرتا ہے:
"ایک ایسی ٹیکنالوجی جو کسی آلے یا سافٹ ویئر کو ڈیٹا کے استعمال سے – (1) ارد گرد کے ماحول کو سمجھنے، (2) خودکار طریقے سے ڈیٹا کو سمجھنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت دینے، اور (3) کسی خاص مقصد کے ساتھ مشورے، پیش گوئی یا فیصلے کرنے کے قابل بنائے۔"
یہ تعریف خود ہی یہ سوال اٹھاتی ہے کہ AI وہ مخصوص مقصد حاصل کرنے کے لیے کیا کرے گی؟ اگر وہ کسی ایسے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرے جو اس کے لیے جائز نہیں ہے تو کیا ہوگا؟ چونکہ AI خود سیکھتی ہے، پہلے سے تیار کردہ کوڈز کی طرح نہیں، اس لیے یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کیسے کام کرے گی۔
فی الحال AI انسانوں کا علم اکٹھا کر سکتی ہے اور اسے دہرا سکتی ہے، مگر انسانوں کی طرح احساسات نہیں رکھتی۔ لہٰذا، AI اخلاقیات کو سمجھ سکتی ہے، مگر خود اس پر عمل نہیں کر سکتی۔ اگر وہ کوئی غیر اخلاقی کام کر بیٹھے تو اسے خود پتہ نہیں چلے گا کہ یہ غلط ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ہدف کو مکمل کرتے ہوئے ایسا کام بھی کر سکتی ہے جو قانونی لحاظ سے غیر اخلاقی ہو، مثلاً کسی محفوظ ڈیٹا کو چوری کرنا یا ادائیگی کے سسٹم کو بائی پاس کرنا۔
مختلف ممالک نے AI کی تعریف کر دی ہے، لیکن پاکستان میں ابھی اسے قانونی پہچان نہیں دی گئی۔ پاکستان نے ایک قومی AI پالیسی متعارف کرائی ہے اور ایک مسودہ قانون بھی تیار کیا ہے تاکہ AI اور متعلقہ معاملات کو ریگولیٹ کیا جا سکے۔
پالیسی AI یا اس کے سسٹمز کی کوئی مخصوص تعریف نہیں دیتی، البتہ مجوزہ قانون کے مطابق:
"AI کا مطلب ہے انسانی اور ڈیجیٹل ذہانت پر مبنی ایسا نظام جو ایک ساتھ کام کرے تاکہ سیکھنے، ترقی اور مؤثر، پائیدار آئی ٹی نظام بنایا جا سکے۔"
یہ قانون (بل) جب دوسرے ممالک کے قوانین سے موازنہ کیا جائے تو اُس میں مصنوعی ذہانت (AI) کی ٹیکنالوجی کو سمجھنے کی کمی نظر آتی ہے۔ اگرچہ پالیسی میں کچھ مقاصد طے کیے گئے ہیں، لیکن بل میں AI کے استعمال، نگرانی، ترقی اور اس کے نفاذ کے بارے میں کچھ واضح نہیں ہے۔ خاص طور پر AI کے ذریعے بغیر اجازت معلومات تک رسائی اور اس کے ممکنہ نتائج پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ AI کو کس طرح ریگولیٹ کیا جائے، خاص طور پر کاروباری میدان میں۔
یورپی یونین کا مصنوعی ذہانت ایکٹ:
یورپی یونین نے ایک قانون منظور کیا ہے جس کا مقصد AI کے نظاموں کے لیے اخلاقی اور قانونی اصولوں پر مبنی ایک جامع فریم ورک تیار کرنا ہے۔ اس قانون میں 7 اصول بیان کیے گئے ہیں جن کا مقصد ذاتی معلومات کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ یہ اصول ہیں:
1. انسان کا کنٹرول اور نگرانی
2. رازداری اور ڈیٹا کی حفاظت
3. تکنیکی مضبوطی اور حفاظت
4. امتیازی سلوک سے پاک اور انصاف
5. شفافیت
6. سماجی اور ماحولیاتی فلاح
7. احتساب
اس قانون کے تحت ذاتی معلومات کی حفاظت کو ایک بنیادی حق تسلیم کیا گیا ہے، اور AI سسٹم کے پورے عمل کے دوران اس کی رازداری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ AI سسٹمز کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صرف کم سے کم اور ضروری معلومات استعمال کریں۔ اس قانون میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ AI سسٹم کو اس طرح ڈیزائن کیا جائے کہ وہ ان اصولوں پر پورا اُترے، اور سروس فراہم کرنے والے ادارے اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کا AI نظام ان اصولوں کی پیروی کرتا ہو۔
یورپی یونین کا AI ایکٹ ذاتی معلومات کے تحفظ کو بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ جوڑتا ہے اور AI سسٹمز کے استعمال کے لیے کچھ اصول تجویز کرتا ہے۔ لیکن یہ ایکٹ ایک اہم کاروباری مسئلے پر بات نہیں کرتا، یعنی یہ کہ کوئی شخص یا ادارہ کسی اور کے قیمتی ڈیٹا تک بغیر اجازت رسائی حاصل کرے یا اس ڈیٹا کو کسی ایسے شخص کے لیے استعمال کرے جس نے اس کی قیمت ادا نہیں کی ہو۔
اسی طرح، امریکہ میں ایک "وائٹ پیپر" جاری کیا گیا ہے، جو کہ "AI حقوق کے بل" کا ایک خاکہ ہے۔ یہ وائٹ پیپر پانچ اصولوں پر مبنی ہے:
1. محفوظ اور مؤثر AI سسٹمز
2. الگورتھم کے ذریعے امتیاز سے بچاؤ
3. ڈیٹا کی پرائیویسی
4. وضاحت اور انسانی متبادل
5. غور و فکر اور بیک اپ پلان
ان میں سب سے اہم اصول صارف کی پرائیویسی ہے۔ اس وائٹ پیپر کے مطابق، صارف کو اپنے ڈیٹا پر مکمل کنٹرول ہونا چاہیے اور پرائیویسی کا تحفظ نظام میں شروع سے ہی موجود ہونا چاہیے۔ ڈیٹا صرف اس کے مالک کی اجازت سے ہی لیا جائے، اور اس کے غلط استعمال سے بچاؤ کے لیے نگرانی کی جائے۔ شفافیت بھی ضروری ہے تاکہ فرد کے حقوق کا خیال رکھا جا سکے۔
تاہم، ایسا لگتا ہے کہ یہ وائٹ پیپر اور اس سے جڑا بل صرف اس بات پر زور دیتا ہے کہ AI اور AI سسٹمز کے ذریعے شہریوں کے ذاتی ڈیٹا کی حفاظت اور اس کے استعمال کو کیسے ریگولیٹ کیا جائے۔ لیکن یہ کاروباری اداروں کے لیے قیمتی معلومات کے غیر مجاز استعمال کا مسئلہ حل نہیں کرتا۔
آج کل جب آن لائن ڈیٹا بیس فراہم کرنے والے ادارے AI سروسز پر مقدمے کر رہے ہیں، تو اس حوالے سے قوانین کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ ایک مشہور مقدمہ "نیویارک ٹائمز" کی طرف سے Open AI اور اس کے پارٹنر "مائیکروسافٹ" کے خلاف ہے۔ الزام یہ ہے کہ Open AI نے نیویارک ٹائمز کی لاکھوں خبریں لے کر اپنے AI ماڈل کو تربیت دی۔
نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ Chat GPT صارفین کی طرف سے دیے گئے سوالات پر، ان خبروں کے حصے بغیر کسی تبدیلی کے دوبارہ پیش کرتا ہے، جو کہ ان کے لیے اہم ہیں کیونکہ وہ رپورٹرز کی تحقیق کے بعد جمع کی گئی ہوتی ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت (AI) کے نظاموں کے ذریعے اخباری مضامین کو اکٹھا کرنا اور انہیں اپنی طرف منسوب کرنا کاپی رائٹ کی خلاف ورزیوں میں شامل ہے۔ یہ اقدامات نیو یارک ٹائمز کے کاروباری ماڈل کو نقصان پہنچاتے ہیں، جو سبسکرپشنز اور اسی طرح کے دیگر ذرائع آمدن پر انحصار کرتا ہے۔ اگرچہ یہ مقدمہ ابھی تک فیصلہ ہونا باقی ہے، لیکن قانونی، ٹیکنالوجی اور کاروباری دنیا کی نظریں اس کیس کی پیشرفت پر مرکوز ہیں، کیونکہ یہ مقدمہ مصنوعی ذہانت اور کاپی رائٹ قوانین کے درمیان تعلقات کا پہلا بڑا قدم ہے۔
پاکستان کے کاروباری نقطہ نظر سے، اگر موجودہ بل کو قانون کی شکل دی جاتی ہے، تو یہ شروع سے ہی غیر ضروری محسوس ہوتا ہے۔ پالیسی اور اس سے بننے والے قانون کو یورپی یونین کے AI ایکٹ سے تحریک لے کر مصنوعی ذہانت کی ترقی اور محفوظ استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم، اسے یورپی یونین کے AI ایکٹ اور امریکہ میں سفید کاغذ کے تحت پیش کردہ بل سے آگے بڑھ کر کمپنیوں کے منافع کو نقصان پہنچانے والے غیر مجاز رسائی کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ مصنوعی ذہانت کے نظاموں میں قانون کے تحت بنائے جانے والے تحفظات کی عملی حیثیت پر بحث جاری ہے، کیونکہ AI کی فطرت ایسی ہے کہ یہ آخر کار کسی بھی اندرونی تحفظ کو نظرانداز کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ڈویلپر قانون کی پابندی کرے، تب بھی AI نظام کے ذریعے غیر اخلاقی یا غیر مجاز طریقے سے ڈیٹا کا استعمال ہو سکتا ہے۔ مزید یہ کہ غیر مجاز رسائی اور استعمال کا معاملہ ایک وسیع تر بحث کا حصہ ہے، جس میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر تخلیق کردہ کاموں کی ملکیت اور "منصفانہ استعمال" کے تصور پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔
Comments
Post a Comment