والد بچوں کا اصل گارڈین ہے یا والدہ ؟ اگر والدہ دوسری شادی کر لے تو بچے کس کے پاس رہے گئے ؟ اگر والد دوسرے ملک ہو تو بچے کس کے پاس رہے گئے ؟ سپریم کورٹ بچوں کی کسٹڈی کے بارے میں کیا کہتی ہے ؟
گل صادم خان بنام حلیمہ
(شاہد بلال حسن، جج)
PLD 2025 سپریم کورٹ 47
معزز جج صاحبان: یحییٰ آفریدی چیف جسٹس اور شاہد بلال حسن جج
گل صادم خان درخواست گزار
بنام
مسماۃ حلیمہ اور دیگر مدعا علیہان
سول پٹیشن نمبر 421-P برائے 2022
(فیصلہ مورخہ 22 نومبر 2024)
پشاور ہائی کورٹ بنوں بنچ کے فیصلے مورخہ 14 جنوری 2022 کے خلاف جو رٹ پٹیشن نمبر 541-B برائے 2021 میں سنایا گیا تھا
گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ 1890
دفعات 7 اور 25 نابالغ کی کسٹڈی فیصلہ کن عوامل نابالغ کی فلاح و بہبود معاشی حالات دائرہ کار درخواست گزار/والد نے دو نابالغ بیٹوں کی کسٹڈی حاصل کرنے میں ناکامی کا سامنا کیا۔
قرار دیا گیا کہ درخواست گزار بیرون ملک مقیم تھا اور اس نے خصوصی وکیل کے ذریعے 1890 کے گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کی دفعہ 25 کے تحت درخواست دائر کی جو عدالت میں بطور درخواست گزار کا سپیشل اٹارنی پیش ہوا یہ امر بھی ظاہر ہوا
کہ درخواست گزار کو نہ تو نابالغ بچوں سے محبت تھی اور نہ ہی ان کی دیکھ بھال کا کوئی جذبہ تھا درخواست گزار نے نہ تو بچوں کے ساتھ وقت گزارا اور نہ ہی ان کی دیکھ بھال کی اور نہ ہی وہ ابتدائی سماعت یا اپیل کی سماعت کے دوران عدالت میں پیش ہوا ریکارڈ میں ایسا کوئی مواد نہیں تھا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ
مدعا علیہ/والدہ بچوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کر رہی تھی یا وہ انہیں اس طرح تعلیم نہیں دے رہی تھ ک وہ بہترین شہری بن سکیں مدعا علیہ/والدہ نے اپنے بچوں کی خاطر دوسری شادی نہیں کی تاکہ ان کی فلاح و بہبود متاثر نہ ہو غربت کو بچوں کی تحویل کے لیے والدہ کو نااہل قرار دینے کی کوئی معقول بنیاد نہیں سمجھا گیا
عدالت کے لیے نابالغ کی تحویل کا فیصلہ کرتے وقت سب سے اہم پہلو نابالغ کی فلاح و بہبود ہے 1890 کے گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت عدالت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مطمئن ہو کہ سرپرست مقرر کرنا نابالغ کے مفاد میں ہوگا
اگرچہ والد فطری سرپرست ہوتا ہے، مگر اسے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ بطور سرپرست نابالغ کے مفاد کا تحفظ بہتر انداز میں ہو سکتا ہے بچوں کی فلاح و بہبود ہی اولین ترجیح ہے اور فیصلہ اسی کے مطابق کیا جانا چاہیے سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا درخواست گزار کی اپیل خارج کر دی گئی اور اپیل دائر کرنے کی اجازت مسترد کر دی گئی۔
(صفحہ 52، 53) A & B
متعلقہ عدالتی نظائر:
خان محمد بنام مسماۃ ثریا بی بی و دیگر (2008 SCMR 480)
محمود اختر بنام ڈسٹرکٹ جج، اٹک و دیگر دو (2004 SCMR 1839)
مسماۃ طلعت ناصرا بنام مسماۃ منور سلطانہ و دیگر دو (1985 SCMR 1367)
مسماۃ روبیہ جلیانی بنام ظہور اختر راجہ و دیگر دو (1991 SCMR 1834)
شاہ حاجی محمد ظہیر شاہ وکیل برائے ریکارڈ نے شاہ فیصل نجفی وکیل سپریم کورٹ کی معاونت سے درخواست گزار کی طرف سے پیش ہوئے (ویڈیو لنک کے ذریعے پشاور سے)
مدعا علیہ کی جانب سے کوئی پیش نہ ہوا۔
سماعت کی تاریخ:
22 نومبر 2024
حکم:
شاہد بلال حسن جج
یہ درخواست پشاور ہائی کورٹ بنوں بینچ بنوں کے 14.01.2022 کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی ہے جو کہ W.P نمبر 541-B/2021 میں دیا گیا تھا۔
2. حقائق کی وضاحت:
درخواست گزار نے مدعا علیہ نمبر 1 کے خلاف اپنے دو بیٹوں ولی اللہ اور عبداللہ کی کسٹڈی کے لیے گارڈین شپ کی درخواست دائر کی جس کی سختی سے مزاحمت کی گئی
درخواست گزار کو سازگار حکم نامہ حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی اور ان کی درخواست 27.01.2021 کو معزز ٹرائل کورٹ نے مسترد کر دی بعد ازاں اپیل کو 17.03.2021 کے فیصلے کے ذریعے ترمیم کے ساتھ نمٹا دیا گیا۔ درخواست گزار اس فیصلے سے غیر مطمئن رہا اور اس نے آئینی درخواست دائر کی لیکن وہ بھی مسترد کر دی گئی لہٰذا موجودہ درخواست دائر کی گئی
3. ہم نے درخواست گزار کے وکیل کو سنا اور اس کی معاونت سے ریکارڈ کا جائزہ لیا۔ عدالت کے نزدیک کسی بچے کی تحویل کا فیصلہ کرتے وقت سب سے اہم اور بنیادی غور و فکر اس کی فلاح و بہبود اور بہتری ہے اور کچھ نہیں۔
گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 کی دفعہ 25 میں درج ہے:
25: سرپرست کے پاس وارڈ (بچے) کی کسٹڈی
(1) اگر کوئی وارڈ اپنے سرپرست کی کسٹڈی سے نکل جائے یا اسے ہٹا دیا جائے تو عدالت اگر وہ یہ سمجھے کہ بچے کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے کہ وہ سرپرست کے پاس واپس جائے تو وہ اس کی واپسی کا حکم دے سکتی ہے اور اس حکم پر عمل درآمد کے لیے عدالت یہ بھی حکم دے سکتی ہے کہ بچے کو گرفتار کر کے گارڈین کے حوالے کیا جائے۔"
اسی طرح، بچے کی کسٹڈی کے معاملے پر غور کرنے کے لیے متعلقہ دفعہ 17 درج ذیل ہے:
17: سرپرست مقرر کرنے میں عدالت کے مدنظر نکات:
(1) سرپرست مقرر کرتے وقت یا کسی کو سرپرست قرار دیتے وقت عدالت کو اس دفعہ کے احکام کے تحت، اس بات سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے کہ جو چیز اس قانون کے مطابق جس کے تحت نابالغ آتا ہے نابالغ کی فلاح و بہبود کے لیے موزوں معلوم ہو وہی اختیار کی جائے
(2) نابالغ کی فلاح و بہبود کا تعین کرتے وقت عدالت کو نابالغ کی عمر جنس اور مذہب مجوزہ گارڈین کے کردار اور صلاحیت نابالغ کے ساتھ اس کے رشتہ داری کے قریب ترین درجے اگر کوئی ہو کسی متوفی والدین کی خواہشات اور نابالغ یا اس کی جائیداد کے ساتھ مجوزہ گارڈین کے کسی بھی موجودہ یا سابقہ تعلقات کو مدنظر رکھنا چاہیے
(3) اگر نابالغ اتنی سمجھ بوجھ رکھتا ہو کہ اپنی پسند کا اظہار کر سکے، تو عدالت اس ترجیح پر غور کر سکتی ہے
مندرجہ بالا قانونی دفعات سے یہ واضح اور بالکل صاف ہے کہ کسی نابالغ کی تحویل کا سوال طے کرتے وقت سب سے اہم غور طلب بات اس کی فلاح و بہبود اور بہتری ہے۔ نابالغ کی فلاح و بہبود تمام دیگر امور پر فوقیت رکھتی ہے۔ دفعہ 17(2) کے عام مطالعہ سے بھی واضح ہوتا ہے کہ مجوزہ گارڈین کے کردار اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ عمر اور جنس بھی وہ اہم عوامل ہیں جن پر نابالغ کی فلاح و بہبود کے تعین میں غور کرنا ضروری ہے۔
ایک فیصلے میں، اس عدالت نے بارہا قرار دیا ہے کہ
نابالغ کی تحویل کا حق مطلق نہیں بلکہ ہمیشہ نابالغ کی فلاح و بہبود کے تابع ہوتا ہے۔ عدالت اس موضوع پر قانون، اور ہر معاملے کے حقائق و حالات کی روشنی میں تحویل کا سوال نابالغ کی فلاح و بہبود کی بنیاد پر حل کرتی ہے اور اس میں کسی قسم کا انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ یہ طے شدہ اصول ہے کہ نابالغ کی تحویل کے معاملات میں سب سے اہم غور طلب پہلو ہمیشہ نابالغ کی فلاح و بہبود ہے۔ بے شک اسلامی قانون کے عمومی اصول کے تحت مسلمان باپ، نابالغ کا فطری سرپرست ہونے کے ناطے تحویل کا ترجیحی حق رکھتا ہے، لیکن یہ اصول ہمیشہ نابالغ کی فلاح و بہبود کے تابع ہوتا ہے، جو کہ تحویل کے سوال میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔"
ایک اور فیصلے میں، اس عدالت کے پانچ رکنی بینچ نے قرار دیا:
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ گارڈین مقرر کرنے کے معاملے میں نابالغ کی فلاح و بہبود، خاص طور پر جب وہ اپنی ماں کے ساتھ ہو، بنیادی غور طلب نکتہ ہے۔ خاص طور پر اگر نابالغ اپنی عمر کی بنیاد پر معقول ترجیح ظاہر کر سکتا ہو، تو عدالت کے لیے یہ فیصلہ کرتے وقت ایک اہم پہلو ہوگا خود تمام ضروری امور انجام دے سکتا ہے بغیر کسی مدد کے

لیکن حضانت کا حق ایک لڑکی کے معاملے میں ماں ،دادی اور اسی طرح دیگر خواتین کو حاصل ہوتا ہے جب تک کہ لڑکی کو پہلا حیض نہ آجائے یعنی جب تک وہ بلوغت کی عمر کو نہ پہنچ جائے کیونکہ لڑکی کو ایسے آداب اور صلاحیتیں سیکھنے کا موقع ملتا ہے جو خواتین کے لیے مناسب سمجھی جاتی ہیں خاندان کے تعلقات کی تربیت میں لیکن بلوغت کے بعد ایک لڑکی کی مناسب پرورش باپ کے حوالے ہونی چاہیے کیونکہ ایک بالغ لڑکی کو کسی سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے اور اس صورت میں والد سب سے زیادہ موزوں شخص ہوتا ہے
15۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ہائی کورٹ کے معزز جج نے بچے کی حضانت والد کو سونپنے کے فیصلے میں جو بنیادی غور و فکر کیا وہ یہ تھا کہ سات سال کی عمر کے بعد مسلمان ذاتی قانون کے تحت حضانت کا حق ختم ہو جاتا ہے، اور مرد بچے کی حضانت کا حق باپ کو حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ گارڈینز اینڈ وارڈز عدالت ایکٹ (VIII آف 1890) کی دفعہ 25 کے تحت قدرتی سرپرست ہوتا ہے۔ تاہم نابالغ کی فلاح و بہبود حضانت کے فیصلے میں سب سے اہم عنصر بنی رہتی ہے خواہ باپ کو سات سال کے بعد بچے کی حضانت کا حق حاصل ہو
عدالت نابالغ کی حضانت صرف اسی صورت میں سونپے گی جب یہ نابالغ کی فلاح و بہبود کے مفاد میں ہو نہ کہ کسی ایک والدین کے حق کے پیش نظر
یہ حقیقت ہے کہ ایک مسلمان باپ اپنی نابالغ اولاد کا قانونی گارڈین ہوتا ہے اور عام طور پر اسے اس کی حضانت کا حق حاصل ہوتا ہے بشرطیکہ یہ نابالغ کی فلاح و بہبود کے حق میں ہو۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ باپ کو نابالغ بیٹے کی حضانت کا حق مطلق نہیں ہے یعنی وہ اپنے رویے یا حالات کی بنا پر اس حق سے محروم ہو سکتا ہے
موجودہ کیس میں شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ وہ والد جس نے نابالغ کی حضانت کے لیے درخواست دی نے علیحدگی کے بعد بچے کو نظرانداز کیا اور رضاکارانہ طور پر اسے ماں کے حوالے کر دیا والدہ نے بچے کی پرورش اور تعلیم کا ذمہ لیا یہاں تک کہ اسے دوسری شادی کا فیصلہ کرنا پڑا اس کے باوجود اس نے اپنے بیٹے کی دیکھ بھال میں کوتاہی نہیں کی اس نے اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اپنی والدہ اور والد پر سونپ دی اور نابالغ کو آج تک مقامی اسکول میں مناسب تعلیم دی جا رہی ہے۔
اس تمام عرصے میں والد نے بچے سے ملنے کی زحمت تک نہ کی بلکہ نان و نفقہ فراہم کرنے سے بھی گریز کیا اور جب ماں نے بچے کے لیے نفقہ کے لیے مقدمہ دائر کیا تب جا کر باپ نے حضانت کے لیے درخواست دائر کی۔ مزید یہ کہ والد نے دوسری شادی بھی کر لی ہے۔ایک یا دو بچے جو نکاح سے باہر پیدا ہوئے۔ درخواست گزار کی دوسری بیوی گاؤں میں رہتی ہے جبکہ مدعا علیہ خود پاکستان آرمی میں فوجی اہلکار کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے اور ایک چھاؤنی سے دوسری چھاؤنی میں تعیناتی کے تحت رہتا ہے لہذا وہ خود بھی اس مکان میں موجود نہیں ہوگا جہاں وہ اپنے بیٹے کو رکھنا چاہتا ہے۔ نابالغ بچہ سوتیلی ماں کے سلوک کے حوالے سے بے یار و مددگار ہوگا اور سوتیلی ماں کی طرف سے کیے جانے والے حملوں کے سامنے بے بس ہوگا کوئی بھی ایسا نہیں ہوگا جو سوتیلی ماں کو اس طرح کے سلوک سے روک سکے یہ ایک مشہور حقیقت ہے کہ سوتیلی ماں کا رویہ عام طور پر بچوں کے ساتھ سخت ہوتا ہے
یہ ان حالات میں تھا کہ معزز عدالتوں نے متفقہ طور پر یہ پایا کہ نابالغ کی فلاح و بہبود اس میں ہے کہ اسے حقیقی ماں کی تحویل میں رکھا جائے جس کی پرورش اپنے والدین کے گھر میں ہو رہی ہو بجائے اس کے کہ اسے مدعا علیہ کے حوالے کر دیا جائے، جو کہ اسے سوتیلی ماں کے گھرانے میں لے جائے گا، جہاں اس کا مستقبل غیر یقینی ہوگا۔
(زیرِ خط الفاظ کو اہمیت دی گئی ہے)
واضح رہے کہ اس معاملے میں درخواست گزار بیرون ملک مقیم ہے
اور اس نے دفعہ 25گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ کے تحت ایک خصوصی وکیل یعنی عامر حمزہ کے ذریعے درخواست دائر کی جو کہ بطور گواہ (P.W.1) پیش ہوا اس حقیقت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ درخواست گزار کو بچوں کے ساتھ محبت، شفقت اور پرواہ نہیں کیونکہ وہ درخواست کے زیر سماعت ہونے کے دوران بچوں کی دیکھ بھال کے لیے نہیں آیا اور نہ ہی معزز اپیلٹ عدالت میں پیش ہوا اس کے علاوہ ریکارڈ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو یہ ظاہر کرے کہ مدعا علیہ نمبر 1 (ماں) بچوں کا مناسب خیال نہیں رکھ رہی یا انہیں اس انداز میں تعلیم نہیں دے رہی کہ وہ کارآمد شہری بن سکیں۔ مزید برآں، مدعا علیہ نمبر 1 (ماں) نے اپنے بچوں کی خاطر دوسری شادی نہیں کی۔
بنیادی طور پر نابالغ کی فلاح و بہبود اسی میں ہے کہ وہ مدعا علیہ نمبر 1 (ماں) کے ساتھ رہے۔
4۔ مزید برآں غربت کو بھی ماں کو بچوں کی تحویل سے محروم کرنے کے لیے ایک جائز بنیاد نہیں سمجھا گیا ہے گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 کے سیکشن 7 کے مطابق عدالت کے لیے بنیادی غور و فکر یہ ہے کہ نابالغ کے لیے سرپرست مقرر کرنے کا حکم دیتے وقت یہ اطمینان حاصل ہو کہ یہ نابالغ کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ اگرچہ یہ ایک مسلمہ قانونی حقیقت ہے کہ باپ فطری سرپرست ہوتا ہے لیکن درحقیقت عدالت کو یہ اطمینان ہونا چاہیے کہ باپ کو بطور سرپرست مقرر کرنے میں نابالغ کی فلاح و بہبود مضمر ہے اور اسی کے مطابق بچے کی تحویل دی جائے۔
بہت سے عوامل ایسے ہو سکتے ہیں جو باپ کو بچے کی تحویل کا اہل نہ بنائیں، اور ان میں سے کچھ عوامل درج ذیل ہو سکتے ہیں اگر باپ مستقل طور پر جرائم میں ملوث ہو یا منشیات یا شراب کا عادی ہو اگر وہ اپنے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہو، یا اگر اس کے پاس اپنے بچوں کی مناسب پرورش اور ان کی صحت مند نشوونما کے لیے وسائل اور ذرائع نہ ہوں۔ اس کے علاوہ، اگر باپ جان بوجھ کر اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتا ہے اور ان کو پورا کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو بھی وہ سرپرستی کے لیے نااہل ہو سکتا ہے۔
مست راضیہ بی بی بمقابلہ ریاض احمد اور دیگر (2004 SCMR 821)
بچہ/بچوں کی پرورش کا معاملہ۔ مذکورہ بالا عوامل مکمل نہیں ہیں اور انہیں ہر کیس کے لیے حتمی نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ ہر معاملے کا فیصلہ اپنی میرٹ پر کیا جانا چاہیے، جس میں بنیادی اور سب سے اہم پہلو بچے کی فلاح و بہبود ہے
اگرچہ محمدی قانون اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اگر ماں دوسری شادی کر لے تو وہ بچے/بچوں کی تحویل سے محروم ہو جاتی ہے تاہم یہ کوئی مطلق اصول نہیں بلکہ ایک ایسا ضابطہ ہے جس سے انحراف کیا جا سکتا ہے اگر کوئی غیر معمولی حالات موجود ہوں جو اس کی وضاحت کر سکیں اگر دوسری شادی کی صورت میں بھی بچے کی فلاح و بہبود ماں کے ساتھ رہنے میں ہے تو اسے ہی تحویل دی جانی چاہیے
5. اس پس منظر میں معزز اپیلیٹ کورٹ نے اپیل کو بجا طور پر یہ مشاہدہ کرتے ہوئے نمٹایا کہ
اس وقت نابالغ بچوں کی تحویل کے لیے کیا گیا بندوبست حتمی نہیں ہے اور اگر حالات میں تبدیلی واقع ہو تو اس پر نظرِثانی کی جا سکتی ہے۔
اگر نابالغ بچے ولی اللہ اور عبداللہ چودہ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنے والد کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کریں۔ (حوالہ: 2007 CLC 1403)
6. اس کے علاوہ، آئینی درخواست کو مسترد کر دیا گیا کیونکہ درخواست گزار کے وکیل نے صرف یہ ہدایت دینے کی درخواست کی تھی کہ زیر التوا درخواست (جو ملاقات کے حقوق کی بحالی سے متعلق تھی) کو جلد از جلد نمٹایا جائے
7. مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر، اپیل شدہ فیصلہ کسی بھی ایسی استثنائی صورتِ حال کا حامل نہیں جو ہمارے مداخلت کی متقاضی ہو۔ لہٰذا، درخواست گزار کی جانب سے ایسا کوئی کیس نہیں بنایا جا سکا جس پر سماعت کی اجازت دی جائے
چنانچہ درخواست خارج کی جاتی ہے
General View:
اس پٹیشن/درخواست میں والد نے اپنے دو بیٹوں کو عدالت کے زریعے حاصل کرنے کے لیے گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے تحت ایک درخواست دائر کی
ٹرائل کورٹ/فیملی کورٹ اور ایپلیٹ کورٹ سے درخواست خارج کر دی گئی تو پٹیشنر نے سپریم کورٹ کا سہارا لیا اور سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی اس درخواست نے پٹیشنر نے درخواست گزار نے بچوں کے ساتھ کوئی محبت کا اظہار نہیں کیا اور وہ بیرون ملک مقیم ہے ایک مختار خاص کے ذریعے ایک شخص کو متعارف کروا کر جس کا نام عامر حمزہ ہے کے ذریعے درخواست اپیل دائر کی گئی چونکہ پٹیشنر بیرون ملک مکیم ہے اور وہ پاکستان نہ ا سکا اس طرح عدالت نے بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کو کم جانتے ہوئے پٹیشنر کی درخواست خارج کر دی جب کہ دوسری طرف رسپونڈنٹ بھی دوسری شادی کر چکی تھی مگر وہ بچے کی اچھی دیکھ بھال کر رہی تھی اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ والد کی محبت و شفقت ضروری ہے اس کی بچوں کی دیکھ بھال ان کی طرف شفقت نہایت ضروری ہے صرف گارڈین اینڈ وارڈ ایکٹ کے دفعہ 25 کے تحت درخواست دائر کرنے سے بچے نہیں ملا کرتے جبکہ ماں دوسری شادی کرنے کے باوجود بھی اپنے بچوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی اس میں سیکشن 12 25 اور 7 کا ذکر کیا گیا ہے حالانکہ عموما سات سال کے بعد بچہ اسلامی قانون کے تحت والد کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر عدالت نے بچے کی فلاح و بہبود کو دیکھتے ہوئے بچے کو والد کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور درخواست کو خارج کر دیا
Comments
Post a Comment